کا خیال اس سے متعلق نہیں کرتا۔ مگرایک پُرانے خیال کے معتقد بڈھے ہندو کے نزدیک اس پانی میںایک غوطہ مارنے سے انسان کے کُل گناہ دفع ہو جاتے ہیں۔
ایک عیسائی کے نزدیک خدا کی تثلیث برحق ہے مگر ایک مسلمان یا براہمو کے نزدیک وہ بالکل لغو ہے۔ اگر کسی ایسے ہندو یا عیسائی سے بحث کر کے اس کے خیال کی لغویت کو ظاہر بھی کر دو( کہ جس کا ظاہر کرنا کچھ مشکل بات نہیں) مگر وہ اس کی لغویت کو تسلیم نہیں کرتا ہے حتی کہ جب جواب سے عاجز آتا ہے تو یہ کہہ کر کہ ’’گو میں ٹھیک جواب نہیں دے سکتا ہوں مگر میں اُس کا قائل ہوں اور دل سے اُسے ٹھیک جانتا ہوں‘‘۔ یہ دل کی گواہی اس کی وہی عادت ہے کہ جوحکماء کے نزدیک طبیعت ثانی کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ پس جس الہام کے آپ قائل ہیں اُس کی بھی وہی کیفیت ہے۔ آپ کے نزدیک ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث وہ خیال ایسا پختہ اور صحیح ہو گیا ہے کہ آپ اس کے مخالف ہماری مضبوط سے مضبوط دلیل بھی قابل اطمینان نہیں پاتے ہیں اور جب ایک طرف سے اپنی دلیل کو کمزور دیکھتے ہیں تو دوسری طر ف بدل کر چل دیتے ہیں۔ اس طور پر فیصلہ ہونا محال ہے۔ آج تک کسی سے ہوا بھی نہیںاور نہ آئندہ ہونے کی اُمید ہے۔ آپ مجھ سے اُن مصنفوں کے نام طلب کرتے ہیں جن کی تصنیف یا تحقیقات میں غلطی نہیں ہے حالانکہ جن علوم کا میں نے ذکر کیاتھا اُس کے جاننے والوں کے نزدیک اِن کی تصنیف کی کیفیت پوشیدہ نہیں ہے کیا آپ نے علم ریاضی کی تصنیفات خود ملاحظہ نہیں کی ہیں؟ کیا علم طبیعات کی کتب آپ کی نظر سے نہیں گزری ہیں؟ بیشک جدید تصنیفات جو انگریزی سے فارسی یا عربی میں ترجمہ نہیں ہوئیں شاید اُن کی کیفیت آپ سے پوشیدہ ہو مگر بعض یونانیوں کی تصنیف مثل اقلیدس کے علم ہندسہ وغیرہ سے غالباً آپ واقفیت رکھتے ہونگے اور ظاہر ہے کہ علم ہندسہ کے راست اور صحیح ہونے میں آج تک دنیا میں کسی عالم کو خواہ (وہ الہام کا مقر ہو یا منکر خدا پرست ہو یا دہریہ) کلام نہیں ہے۔ اگر آپ کی رائے میں وہ درست نہ ہو تو آپ براہ مہربانی مجھ کو اس کی غلطیوں سے مطلع فرمائیں۔
پھر آپ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ کے مضمون کے جواب دینے میں داب مناظرہ کو