آپ نے اُس کے پڑھنے اور سمجھنے میں غور اور فکر کر دخل نہیں دیا۔ پھر آپ کے اس عنایت نامہ میں ایک اور لطف یہ موجود ہے کہ آپ ایک جگہ پر قائم رہتے معلوم نہیں ہوتے۔ پہلے آپ نے الہام کی ضرورت اس دلیل کے ساتھ قائم کی کہ چونکہ انسان کی عقل حقیقت کے معلوم کرنے میں عاجز ہے اور وہ اپنی تحقیقات میں خطا کرتی ہے پس ضرور ہے کہ انسان خدا کی طرف سے الہام پاوے۔ میں نے جب آپ کی اس ضرورت کو فرض ثابت کر دیا اور دکھلا دیا کہ خدا کی حکمت اس ضرورت کو تسلیم نہیں کرتی ہے تو آپ نے پہلے مقام کو چھوڑ کر اب دوسری طرف کا راستہ لیا اور بجائے ہماری تحریر کے تسلیم کرنے یا بشرط اعتراض کسی معقول حجت کے پیش کرنے کے اب اُس سلسلہ کو نجات کے مسئلہ کو لے بیٹھے اور اب اس نئے قضیہ کے ساتھ ایک نئی بحث کے اصولوں کو قائم کرنے لگے۔ پھر اس پر ایک طرفہ یہ کہ آپ اخیر خط میں لکھتے ہیں کہ ’’اگر الہام کی حقیت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو اب از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا بھی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کو توڑدیں‘‘۔ گویا یک نہ شُد دو شُد آپ نے ضرورت الہام پر جو حجت قائم کی تھی وہ تو جناب من میں ایک دفعہ توڑ چکا اور اُس فرضی ضرورت پر جو عمارت الہام کی آپ نے قائم کی تھی اسے بے بنیاد ٹھہرا چکا مگر افسوس ہے ایک عرصہ دراز کی عادت کے باعث اُس کی تصویر ہنوز آپ کی نظروں میں سمائی ہوئی ہے اور وہ عادت باوجود اس کے کہ آپ کو ’’اس بحث میں صرف اظہار حق منظور ہے‘‘ مگر پھر آپ کو حقیتق کے پاس پہنچنے میں سَد راہ ہے۔ تحقیق حق اُس وقت تک اپنا قدم نہیں جما سکتی ہے جب تک کہ ایک خیال جو عادت میں داخل ہو گیا ہے اُس کو ایک دوسر ی عادت کے ساتھ جدا کرنے کی مشق حاصل نہ کی جائے کسی عیسائی کا ایک چھوٹا سا لڑکا بھی گنگا کے پانی کو صرف دریا کا پانی سمجھتا ہے اور اس سے زیادہ گنگا سے نجات وغیرہ