کا نکلنا غیر ممکن ہو خود عادتاً غیر ممکن ہو۔ اب بعد اس کے جس امر میں آپ بحث کر سکتے ہیں اور جس بحث کا آپ کو حق پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ہمارے اس استقرا کے کوئی نظیر دے کر ہمارے اس استقرا کو توڑ دیں یعنی ازردے وضع مستقیم مناظرہ کے جواب آپ کا صرف اس امر میں محصور ہے کہ اگر آپ کی نظر میں ہمارا اِستقرا غیر صحیح ہے تو آپ بفرض بطال ہمارے اس استقرا کے کوئی ایسا فرد کامل ارباب نظر اور فکر اور حدس میں سے پیش کریں کہ جس کی تمام راؤں اور فیصلوں اور جج منٹوں میں کوئی نقص نکالنا ہرگز ممکن نہ ہو اور زبان اور قلم اُس کی سہود خطا سے بالکل معصوم ہوتا ہم بھی تو دیکھیں کہ وہ درحقیقت ایسا ہی معصوم ہے یا کیا حال ہے۔ اگر معصوم نکلے گا تو بیشک آپ سچے اور ہم جھوٹے ورنہ صاف ظاہر ہے کہ جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی سے بچ سکے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہود خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت سے واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کیونکہ آفات شک و شُبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ مقتضائے حکمت اور رحمت اور بندہ پروری اُس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے میں خدا کی طرف سے الہام پائیں اور تفہیم تعلیم کا ملکہ وہبی رکھیں تا کہ نفوس بشریہ کی سچی ہدایت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اپنی سعادت مطلوبہ سے محروم نہ رہیں۔ راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ ۲۱؍ مئی ۱۸۷۹ء) مکرمی جناب مرزا صاحب! عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے الہام کی تعریف اور اس کی ضرورت کے بارے میں جو کچھ لکھاہے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کر سکتا ہوں میرے اتفاق نہ کرنے کی جو جو وجوہات ہیں اُنہیں ذیل میں رقم کرتا ہوں۔ اوّل: آپ کی اس دلیل میں (جس کو آپ لمی قرار دیتے ہیں) علاوہ اس خیال کے کہ وہ