الہام کے لئے جس کو آپ معلول تصور کرتے ہیں علت ہوسکتی ہے یا نہیں ایک صریحاً غلطی ایسی پائی جاتی ہے کہ وہ واقعات کے خلاف ہے۔ مثلاً آپ ارقام فرماتے ہیں کہ ’’کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں اور یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرے کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صد ہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگار چھوڑ گئے‘‘۔ اس سے کیا آپ کا یہ مطلب ہے کہ انسان نے اپنی تحقیقات میں ہزاروں برس سے آج تک جو کچھ مغز زنی کی ہے اور اس میں ہاتھ پیر مارے ہیں اُس میں بجز باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتوں کے کوئی صحیح خیال اور کوئی راست اور حق امر باقی نہیں چھوڑا گیا ہے؟ یا اب جو محقق نیچر کی تحقیقات میں مصروف ہیں وہ صرف ’’نادانی کے ذخیرہ کو زیادہ کرتے ہیں اور حق امر پر پہنچنے سے قطعی مجبور ہیں؟ اگر آپ ان سوالوں کا جواب نفی میں نہ دیں تو صاف ظاہر ہے کہ آپ سینکڑوں علوم اور اُن کے متعلق ہزاروں باتوں کی راست اور صحیح معلومات سے دنیا کی ہر ایک قوم کم و بیش مستفید ہو رہی ہے صریحاً انکار کرتے ہیں۔ مگر میں یقین کرتا ہوں کہ شاید آپ کا یہ مطلب نہ ہوگا اور اس بیان سے غالباً آپ کی یہ مراد ہوگی کہ انسان سے اپنی تحقیقات اور معلومات میں سہو اور خطا کا ہونا ممکن ہے۔ مگر یہ نہیں کہ نیچر نے انسان کو فی ذاتہٖ ایسا بنایا ہے کہ جس سے وہ کوئی معلومات صحت کے ساتھ حاصل ہی نہیں کر سکتا؟ کیونکہ ایسے اشخاص آپ نے خود یکھے اور سنے ہونگے اور نیز تاریخ میں ایسے لوگوں کا ذکر پڑھا ہوگا کہ جو اپنی ’’تمام نظر اور فکر میں‘‘ اگرچہ آپ کے نزدیک سہو اور خطا سے معصوم نہ ہوں مگر بہت سی باتوں میں اُن کی معلومات قطعی راست اور درست ثابت ہوئی ہے اور صدہا امور کی تحقیقات جو پچھلے اور حال کے زمانہ میں وقوع میں آئی ہے اس میں غلطی کا نکلنا قطعی غیر ممکن ہے اور اس بیان کی تصدیق آپ علوم طبعی ریاضی اور اخلاقی وغیرہ کے متعلق صدہا معلومات میں بخوبی کر سکتے ہیں۔ کُل معلومات جو انسان آج تک حاصل کر چکا ہے اور نیز آئندہ حاصل کرے گا اس کے حصول کا کُل سامان