پر۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ فقط
دیوسماج کے بانی مبانی پنڈت شونرائن صاحب سیتانند اَگنی ہوتری سے خط و کتاب
الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اُٹھاتی ہے۔ غرض یہ ایک منجاب اللہ اعلام لذیر ہے کہ جس کو نفس فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔
دلیل لمی نمبر اوّل الہام کی ضرورت
کوئی قانون عاصم ہمارے پاس ایسا نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سے ہم لزوماً غلطی سے بچ سکیں یہی باعث ہے کہ جن حکیموں نے قواعد منطق کے بنائے اور مسائل مناظرہ کے ایجاد کئے اور دلائل فلسفہ کے گھڑے وہ بھی غلطیوں میں ڈوبتے رہے اور صدہا طور کے باطل خیال اور جھوٹا فلسفہ اور نکمی باتیں اپنی نادانی کی یادگاریں چھوڑ گئے۔ پس اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ اپنی ہی تحقیقات سے جمیع امور حقّہ اور عقائد صحیحہ پر پہنچ جانا اور کہیں غلطی نہ کرنا ایک محال عادی ہے کیونکہ آج تک ہم نے کوئی فرد بشر ایسا نہیں دیکھا اور نہ سنا اور نہ کسی تاریخی کتاب میں لکھا ہوا پایا یا جو اپنی تمام نظر اور فکر میں سہو اور خطا سے معصوم ہو۔ پس بذریعہ قیاس استقرائی کے یہ صحیح اور سچا نتیجہ نکلتا ہے کہ وجود ایسے اشخاس کا جنہوں نے صرف قانون قدرت میں غور اور فکر کر کے اور اپنے ذخیرہ کانشنس کو واقعات عالم سے مطابقت دے کر اپنی تحقیقات کو ایسے اعلیٰ پایہ صداقت پر پہنچا دیا ہو کہ جس میں غلطی