مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اورصرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔ آپ عربی علم سے محض بے نصیب اور سخت جاہل ہیں ذرا قادیان کی طرف آؤ اور ہمیں ملو تو پھر آپ کے آگے کتابیں رکھی جائیں گی تا جھوٹے مفتری کو کچھ سزا تو ہو۔ ندامت کی سزا ہی سہی اگرچہ ایسے لوگ شرمندہ بھی نہیں ہوا کرتے۔
مال مسروقہ کو آپ کے مسیح کے رو برو بزرگ حواریوں کاکھانا یعنی بیگانے کھیتوں کی بالیاں توڑنا کیایہ درست تھا؟ اگر کسی جنگ میں کفّارکے بلوے اور خطرناک حالت کے وقت نماز عصر تنگ وقت پر پڑھی گئی تو اس میں صرف یہ بات تھی کہ دو عبادتوں کے جمع ہونے کے وقت اس عبادت کو مقدم سمجھا گیا۔ جس میں کفّار کے خطرناک حملہ کی روک اور اپنے حقوق نفس اور قوم اور ملک کی جائز اور بجا محافظت تھی اور یہ تمام کارروائی اس شخص کی تھی جو شریعت لایا اور یہ بالکل قرآن کریم کے منشاء کے مطابق تھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا ینطق عن الھٰویٰ اِنْ ھُوَ الاَّوَحْیٌ یُوْحٰی (یعنی نبی کی ہر ایک بات خدا تعالیٰ کے حکم سے ہوتی ہے۔ نبی کا زمانہ نزول شریعت کا زمانہ ہوتا ہے اور شریعت وہی ٹھہر جاتی ہے جو نبی عمل کرتا ہے۔ ورنہ جو جو کارروائیاں مسیح نے