بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم از عاید باللہ الصمد مرزا غلام احمد بطرف پنڈت صاحب۔ بعد ماوجب۔ آپ کا خط ملا آپ لکھتے ہیں کہ خط مطبوعہ مطبع مرتضائی لاہوری مطالعہ سے گزرا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک یہ خط آپ نے مطالعہ نہیں کیا کیونکہ تحریر آپ کی شرائط مندرجہ خط مذکورہ بالا سے بکلی برعکس ہے۔ اوّل اس عاجز نے اپنے خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ٹھہرائے ہیں کہ جو اپنی قوم میں معزز علماء اور مشہور اور مقتدا ہیں جن کاہدایت پاناایک گروہ کثیر پر مؤثر ہو سکتا ہے۔ مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتدا و پیشوائے قوم ہیں تو بہت خوب ، میں زیادہ تر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا صرف اتنا کریں کہ پانچ آریہ سماج میں یعنی آریہ سماج قادیان، آریہ سماج لاہور، آریہ سماج پشاور، آریہ سماج امرتسر، آریہ سماج لودہیانہ میں جس قدر ممبر ہیں سب کی طرف سے ایک اقرار نامہ حلفاً اس مضمون کا پیش کریں کہ جو پنڈت لیکھرام صاحب ہم سب لوگوں کے مقتدا اور پیشوا ہیں۔ اگر اس مقابلہ میں مغلوب ہو جائیں گے اور کوئی نشان آسمانی دیکھ لیں تو ہم سب لوگ بلاتوقف شرف اسلام سے مشرف ہو جائیں گے۔ پس اگر آپ مقتصدائے قوم ہیں تو ایسا اقرار نامہ پیش کرنا آپ پر مشکل نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ آپ کا نام سنتے ہی اقرار نامہ پر دستخط کر دیں گے کیونکہ آپ پیشوائے قوم ہو ہوئے۔ لیکن اگر آپ اپنا مقتدائے قوم ہونا ثابت نہ کر سکیں اور آپ اقرار نامہ مرتب کر کے دو ہفتہ تک میرے پاس نہ بھیج دیںتو آپ ایک شخص عوام الناس سے سمجھے جائیں گے جو قابل خطاب نہیں۔ یہبات آپ پر واضح رہے کہ اس معاملہ میں خط مطبوعہ میں شرط بھی درج ہے کہ مقتدائے قوم ہو (دیکھ سرط دہم خط مطبوعہ) اب مقتدا ہونا بجز مقتدیوں کے اقرار کے کیونکر ثابت ہو اور یہ بات کہ ہم نے اپنے خط مطبوعہ میں یہ شرائط لازمی کیوں رکھی کہ شخص ممتحن متقدائے قوم ہو عوام الناس نہ ہو اس شرط کی وجہ یہ ہے کہ عوام الناس میں سے کسی کو مغلوب اور قائل کرنا دوسروں پر مؤثر نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے شخص کے تجربہ کو خواص لوگ سادہ لوحی اور عدم بصیرتی پر حمل کرتی ہیں اور بجائے اس کے کہ کوئی گروہ اس کا اتباع کر کے راہ راست پر آوے حق کی ہدایت یابی کو کسی غرض