بلکہ ہزار در ہزار شکر کا مقام اور ایمان اور یقین کے بڑھانے کا وقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا اور اپنے رسول کی پیشگوئی میں ایک منٹ کابھی فرق پڑنے نہیں دیا اور نہ صرف اس پیشگوئی کو پورا کرکے دکھلایا بلکہ آئندہ کے لئے بھی ہزا روں پیشگوئیوں اور خوارق کا دروازہ کھول دیا۔ اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاﺅ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آبا ءگزرگئے اور بیشمار روحیں اُس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پا لیا۔ اب اس کی قدر کرنا یا نہ کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ میں اس کو بار بار بیان کروں گا اور اِس کے اظہار سے مَیں
مشائخ کا دستور ہو رہا ہے سکھلانا یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو کامل اور واقعی طور پر تجدید دین کہا جائے بلکہ مو خرالذکر طریق تو شیطانی راہوں کی تجدید ہے اور دین کا رہزن۔ قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کو دنیا میں پھیلانابے شک عمدہ طریق ہے مگر رسمی طور پر اور تکلف اور فکر اور خوض سے یہ کام کرنا اور اپنا نفس واقعی طور پر حدیث اور قرآن کا مورد نہ ہونا ایسی ظاہری اور بے مغز خدمتیں ہر ایک باعلم آدمی کر سکتا ہے اور ہمیشہ جاری ہیں۔ ان کو مجددیت سے کچھ علاقہ نہیں یہ تمام امور خدا تعالیٰ کے نزدیک فقط استخوان فروشی ہے اس سے بڑھکر نہیں۔اللہ جلشانہ فرماتا ہے
اندھا اندھے کو کیا راہ دکھاوےگا اور مجذوم دوسروں کے بدنوں کو کیا صاف کرےگا۔ تجدید دین وہ پاک کیفیت ہے کہ اوّل عاشقانہ جوش کے ساتھ اس پاک دل پر نازل ہوتی ہے کہ جو مکالمہ الٰہی کے درجہ تک پہنچ گیا ہو پھر دوسروں میں جلد یا دیر سے اسکی سرایت ہوتی ہے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیّت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخوان فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ انہیں ان تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور انکی باتیں از قبیل جوشیدن ہوتی ہیں نہ محض از قبیل کو شیدن۔ اور وہ حال سے بولتے ہیں نہ مجرد قال سے۔ اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلّی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار اور کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی کیونکہ وہ بکلّی مصفّا کئے گئے اوربتمام و کمال کھینچے گئے ہیں