رکھنے والا اور اُن کی پُر فیض صحبتوں کے رنگ سے رنگین ہے بیان فرماتے تھے کہ حقیقت میں میاں کریم بخش یعنی یہ بزرگ سفید ریش بہت اچھا آدمی ہے اور اعتبار کے لائق ہے مجھ کو اس پر کسی طور سے شک نہیں ہے۔
اب وہ کشف جس طور سے میاں کریم بخش موصوف نے اپنے تحریر ی اظہار میں بیان کیا ہے اس اظہار کی نقل معہ اُن تمام شہادتوں کے جو اس کاغذ پر ثبت ہیں ذیل میں ہم لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے :۔
میرا نام کریم بخش والدکانام غلام رسول قوم اعوان ساکن جمالپور اعوانہ تحصیل لودھیانہ پیشہ زمینداری عمرتخمینًا چونسٹھ ۶۴سال مذہب موحد اہلحدؔ یث حلفًا بیان کرتا ہوں کہ تخمینًا تیس یا اکتیس سال کا گذرا ہوگا یعنی سمت ۱۹۱۷ میں جبکہ سن سترہ کا ایک مشہورقحط پڑا تھا ایک بزرگ گلاب شاہ نام جس نے مجھے توحید کا راہ سکھلایا اور جو بباعث اپنے کمالات فقر کے بہت مشہور ہوگیا تھا اور اصل باشندہ ضلع لاہور کا تھا ہمارے گاؤں جمالپور میں آرہا تھااور ابتداء میں ایک فقیر سالک اور زاہد اورعابد تھا اور اسرار توحید اُس کے منہ سے نکلتے تھے لیکن آخر اس پر ایک ربودگی اور بیہوشی طاری ہو کرمجذوب ہوگیا اور بعض اوقات قبل از ظہور بعض غیب کی باتیں اس کی زبان پر جاری ہوتیں اور جس طرح وہ بیان کرتا آخر اُسی طرح پوری ہوجاتیں۔ چنانچہ ایک دفعہ اُس نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے ایک قحط شدید کے آنے کی پیشگوئی کی تھی اور پیش از وقوع مجھے بھی خبر دی تھی۔ سو تھوڑے دنوں کے بعد سترہ کاقحط پڑ گیا تھا۔ اور ایک دفعہ اُس نے بتلایا تھا کہ موضع رام پور ریاست پٹیالہ تحصیل پائیلی کے قریب جہاں اب نہر چلتی ہے ہم نے وہاں نشان لگایا ہے کہ یہاں دریا چلے گا۔ پھر بعد ایک مدّت کے وہاں اُسی نشان کی جگہ پر نہر جاری ہوگئی جو درحقیقت دریا کی ہی ایک شاخؔ ہے۔یہ پیشگوئی اُن کی سارے جمالپور میں مشہور ہے۔ ایساہی ایک دفعہ انہوں نے سمت سترہ کے قحط سے پہلے کہا تھا کہ اب بیوپاریوں کو