ایسا ہی فروری ۱۸۸۶ ؁ء میں بمقام ہوشیارپور منشی محمدیعقوب صاحب برادر حافظ محمد یوسف نے میرے پاس بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی مرحوم سے ایک دن میں نے سُنا کہ وہ آپ کی نسبت یعنی اس عاجز کی نسبت کہتے تھے کہ میرے بعد ایک عظیم الشان کام کے لئے وہ مامور کئے جائیں گے۔ مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ منشی محمد یعقوب صاحب کے منہ سے یہی الفاظ نکلے تھے یا انہیں کے ہمؔ معنے اور الفاظ تھے۔ بہرحال انہوں نے بعض آدمیوں کے روبر و جن میں سے ایک میاں عبداللہ سنور ی پٹیالہ کی ریاست کے رہنے والے ہیں اس مطلب کو انہیں الفاظ یا اور لفظوں میں بیان کیا تھا۔ مجھے یا د ہے کہ اس وقت منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور کئی اَور صاحب میرے مکان پرجو شیخ مہر علی صاحب رئیس کامکان تھا موجود تھے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس جلسہ میں کون کون موجود تھا جب یہ ذکر کیاگیا۔مگر میاں عبد اللہ سنوری نے میرے پاس بیان کیا کہ میں اس تذکرہ کے وقت موجودتھا اورمیں نے اپنے کانوں سے سُنا۔ از انجملہ ایک کشف ایک مجذوب کا ہے۔جو اس زمانہ سے تیس یا اکتیس برس پہلے اس عالم بے بقا سے گذرچکا ہے۔ جس شخص کی زبان سے میں نے یہ کشف سنا ہے وہ ایک معمر سفید ریش آدمی ہے۔ جس کے چہرہ پر آثار صلاحیت وتقویٰ ظاہر ہیں جس کی نسبت اس کے جاننے والے بیان کرتے ہیں کہ یہ درحقیقت راست گو اور نیک بخت اور صالح آدمی ہیں۔ یہاں تک کہ مولوی عبدالقادرمدرس جمالپور ضلع لدھانہ نے جو ایک صالح آدمی ہے اس پیر سفید ریش کی بہت تعریف کی کہ درؔ حقیقت یہ شخص متقی اور متبع سنّت اور راست گو ہے۔اور نہ صرف انہوں نے آپ ہی تعریف کی بلکہ اپنی ایک تحریر میں یہ بھی لکھا کہ مولوی محمد حسن صاحب رئیس لدھیانہ کہ جوگروہ موحدین میں سے ایک منتخب اور شریف اور غایت درجہ کے خلیق اور بُردبار اور ثقہ ہیں جن کے والدصاحب مرحوم کا جو ایک باکمال بزرگ تھے یہ سفید ریش بڈھا قدیمی دوست اور ہم قوم اورپُرانے زمانہ سے تعارف