اوراُن کے علماء اور اُن کے فقراء اور اُن کے مشائخ اوراُن کے صلحاء اور اُن کے مرد اور اُن کی عورتیں مجھے کاذب خیال کر کے پھرمیرے مقابل پر دیکھنا چاہیں کہ قبولیت کے نشان مجھ میں ہیں یا اُن میں۔ اور آسمانی دروازے مجھ پر کھلتے ہیں یا اُن پر۔ اور وہ محبوب حقیقی اپنی خاص عنایات اور اپنے علوم لدنیہ اور معارف روحانیہ کے القاء کی وجہ سے میرے ساتھ ہےؔ یا اُن کے ساتھ۔ تو بہت جلد اُن پر ظاہرہوجائے گا کہ وہ خاص فضل اور خاص رحمت جس سے دل مورد فیوض کیاجاتا ہے اسی عاجز پر اس کی قوم سے زیادہ ہے۔کوئی شخص اس بیان کو تکبّر کے رنگ میں نہ سمجھے بلکہ یہ تحدیث نعمت کی قسم میں سے ہے وذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ اسی کی طرف اشارہ ان الہامات میں ہے قل انی امرت و انا اول المؤمنین۔ الحمد للّٰہ الذی اذھب عنی الحزن واٰتانی ما لم یؤت احد من العٰلمین۔ احد من العٰلمین سے مراد زمانہ حال کے لوگ یا آئندہ زمانہ کے ہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
از انجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ ۱۷ جون ۱۸۹۱ ء سے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہؔ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔ فقط ایک صاحب غلام نبی نارو والے نام اپنے اشتہارمرقومہ دوم ذیقعدہ میں لکھتے ہیں کہ یہ افتراء ہے اگر افتراء نہیں تو اُس راوی کا نام لینا چاہیئے جس کے روبرو مولوی صاحب مرحوم نے بیان کیا۔ سو اب ہم نے بیان کر دیا کہ وہ راوی کون ہے اور کس درجہ کا آدمی ہے۔ چاہیئے کہ حافظ صاحب سے دریافت کریں کہ افتراء ہے یا سچی بات ہے۔ و من اظلم ممن افترٰی او کذّب و ابٰی۔