شخص نابینا نہیں تو صریح اس علامت سے دیکھ لے گا اور دوسرے میں اس کی نظیر نہیں پائیگا۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کی علامت یہ لکھی ہے کہ اسؔ کے دم سے کافر مرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مخالف اور منکر کسی بات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس کے دلائل کاملہ کے سامنے مرجائیں گے۔ سو عنقریب لوگ دیکھیں گے کہ حقیقت میں مخالف حجت اور دلیل بینہ کی رو سے مرگئے۔ از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح جب آئے گا تو لوگوں کے عقائد اور خیالات کی غلطیاں نکالے گا جیسا کہ بخاری میں یہی حدیث لکھی ہے کہ مسیح ابن مریم حَکَم اور عدل ہونے کی حالت میں نازل ہوگا۔ پس حَکم اور عدل کے لفظ سے ہر یک دانا سمجھ سکتا ہے کہ مسیح بہتوں کے فہم اور سمجھ کے مخالف حق اور عدل کے ساتھ حکم کرے گا اور جیسے حَکم عدل سے نادان لوگ ناراض ہوجاتے ہیں ایسا ہی اس سے بھی ہوں گے۔سو یہ عاجز حَکم ہو کر آیا اور تمام غلط اوہام کا غلط اوہام ہونا ظاہر کر دیا۔ چنانچہ لوگ اوّل یہ سمجھ رہے تھے کہ وہی مسیح ابن مریم نبی ناصری جو فوت ہو چکا ہے پھر دوبارہ دنیا میں آجائے گا۔ سو پہلے یہی غلطی ان کی دور کر دی گئی اور اُن لوگوں کو سچا ٹھہرایا گیا جو مسلمانوں میں سے مسیح کی موت کے قائل تھے یا جیسے عیسائیوں میں سے یونیؔ ٹیرین فرقہ جو اسی بات کا قائل ہے کہ مسیح مرگیا اور پھر دنیا میں نہیں آئے گا اور ظاہر کر دیا گیا کہ قرآن کریم کی تیس آیتوں سے مسیح ابن مریم کافوت ہونا ثابت ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی نبی کی وفات ایسی صراحت سے قرآن کریم میں نہیں لکھی جیسی مسیح ابن مریم کی۔اور یہ وہ امر ہے جسکو ہم شرطی طورپر قرآن کریم کی رو سے پیش کر سکتے ہیں۔اور ہم نے مسیح کی موت کا ثبوت دینے کے بعد یہ بھی ثابت کر دیا کہ وعدہ صرف یہ تھا کہ جب چودھویں صدی تک اس اُمّت کے ایّام پہنچ جائیں گے تو خدائے تعالیٰ اس لطف واحسان کی طرح جو حضرت موسیٰ کی اُمت سے اُس اُمت کے آخری زمانہ میں کیا تھا۔ مثیل موسیٰ کی ایک غافل اُمت پر بھی اُن کے آخری زمانہ میں وہی احسان کرے گا