سو وہ یہی ہے جو پیدا ہوگیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک۔ از انجملہ ایک یہ ہے کہ مسیح کے نزول کی علامت یہ لکھی ہے کہ دو فرشتوں کے پروں پر اس نے اپنی ہتھیلیاں رکھی ہوئی ہوں گی۔ یہ اؔ س بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کا دایاں اور بایاں ہاتھ جو تحصیل علوم عقلی اور انوار باطنی کا ذریعہ ہے آسمانی موکلوں کے سہارے پر ہوگا اور وہ مکتب اور کتابوں اور مشائخ سے نہیں بلکہ خدائے تعالیٰ سے علم لدنّی پائے گا اور اس کی ضروریات زندگی کا بھی خدا ہی متولّی اور متکفّل ہوگا۔جیسا کہ عرصہ دس سال سے براہین احمدیہ میں اس عاجز کی نسبت یہ الہام چھپ چکا ہے کہ انک باعیننا سمّیتک المتوکل وعلمنٰہُ من لدنا علمًا یعنی تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ہم نے تیرا نام متوکّل رکھا اور اپنی طرف سے علم سکھلایا۔ یا درہے کہ اجنحہ سے مراد جو حدیث میں ہے صفات اور قویٰ ملکیہ ہیں جیسا کہ صاحب لمعات شارح مشکٰوۃ نے حدیث مندرجہ ذیل کی شرح میں یہی معنے لکھے ہیں۔ عن زید ابن ثابت قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طوبیٰ للشام قلنا لای ذٰلک یارسو ل اللّٰہ قال لان ملائکۃ الرحمٰن باسطۃ اجنحتھا علیھا رواہ احمد والترمذی۔ یہ بات بہت سی حدیثوں اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جوشخص کاملؔ انقطاع اور کامل توکل کا مرتبہ پیدا کرلیتا ہے تو فرشتے اس کے خادم کئے جاتے ہیں اور ہر یک فرشتہ اپنے منصب کے موافق اس کی خدمت کرتا ہے وقال اللّٰہ تعالٰی: 333333 ۱؂ ایسا ہی خدائے تعالیٰ فرماتاہے 33۲؂ یعنی اُٹھایا ہم نے اُن کو جنگلوں میں اور دریاؤں میں۔ اب کیا اس کے یہ معنے کرنے چاہئیں کہ حقیقت میں خدائے تعالیٰ اپنی گود میں لے کر اُٹھائے پھرا۔ سو اسی طرح ملائک کے پروں پر ہاتھ رکھنا حقیقت پر محمول نہیں۔ اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عاجز ایسی علامت متذکرہ بالا کے ساتھ آیا ہے اور اجنحہ ملائکہ پر اس عاجز کے دونوں ہاتھ ہیں اور غیبی قوتوں کے سہارے سے علوم لدنّی کھل رہے ہیں۔اگر کوئی