اور ظاہر ہے کہ آدم کے ظہور کا وقت روز ششم قریب عصر ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ اور توریت سے بھی ثابتؔ ہوتا ہے۔ اس لئے ہریک منصف کو مانناپڑے گا کہ وہ آدم اور ابن مریم یہی عاجز ہے۔ کیونکہ اوّل تو ایسا دعوےٰ اس عاجز سے پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا اور اس عاجز کا یہ دعویٰ دس برس سے شائع ہورہا ہے او ر براہین احمدیہ میں مدّت سے یہ الہام چھپ چکاہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی نسبت فرمایا ہے کہ یہ آدم ہے اور یہ خدائے تعالیٰ کی ایک باریک اور کامل حکمت ہے کہ اس طوفان نزاع کے وقت سے دس برس پہلے ہی اُس نے اس عاجز کا نام آدم اور عیسیٰ رکھ دیا تا غور کرنے والوں کے لئے نشان ہو اور تا اُس تکلّف اور تاویل کا خیال دور ہوجاوے جو خام طبع لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ سو اس حکیم مطلق نے اس عاجز کا نام آدم اور خلیفۃ اللہ رکھ کر اور انّی جاعل فی الارض خلیفہ کی کھلے کھلے طور پر براہین احمدیہ میں بشارت دے کرلوگوں کو توجہ دلائی کہ تا اِس خلیفۃ اللہ آدم کی اطاعت کریں اور اطاعت کرنے والی جماعت سے باہر نہ رہیں اور ابلیس کی طرح ٹھوکر نہ کھاویں اور من شَذَّ شُذّ فی النّار کی تہدید سے بچیں اور اپنے الہاموں کی حقیقت کو سمجھیں لیکن انہوں نے کورانہ لکیر کا نام جماعت ؔ رکھا اور حقیقی جماعت جو بنظر ظاہر بیناں ایک فۂ قلیلہ اور قلیلاً ما ہم میں داخل ہے اس سے مُنہ پھیر لیا اور اس عاجز کو جوخدائے تعالیٰ نے آدم مقرر کر کے بھیجا اس کا یہ نشان رکھا کہ الف ششم میں جو قائم مقام روز ششم ہے یعنی آخری حصّہ الف میں جو وقت عصر سے مشابہ ہے اس عاجز کو پیدا کیا جیسا کہ وہ فرماتا ہے 33 ۱۔ اور ضرور تھا کہ وہ ابن مریم جس کا انجیل اور فرقان میں آدم بھی نام رکھا گیا ہے وہ آدم کی طرز پر الف ششم کے آخر میں ظہور کرتا۔ سو آدم اوّل کی پیدائش سے الف ششم میں ظاہر ہونے والا یہی عاجز ہے۔ بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ بنی آدم کی عمر سات ہزار برس ہے اور آخری آدم پہلے آدم کی طرز ظہور پر الف ششم کے آخر میں جوروز ششم کے حکم میں ہے پیداہونے والا ہے