ازانجملہ ایک یہ کہ ضرور تھا کہ آنے والا ابن مریم الف ششم کے آخر میں پیدا ہوتا۔ کیونکہ ظلمت عامہ اور تامہ کے عام طور پر پھیلنے کی وجہ سے او ر حقیقت انسانیہ پر ایک فنا طاری ہونے کے باعث سے وہ روحانی طورپر ابو البشر یعنی آدم کی صورت پر پیدا ہونے والاہے اور بڑے علامات اور نشان اُس کے وقت ظہور کے انجیل اورفرقان میں یہ لکھے ہیں کہ اس سے پہلے روحانی طورپر عالمِ کون میں ایک فساد پیدا ہوجائے گا۔ آسمانی نورکی جگہ دُخان لے لے گا اور ایک عالم پر دخان کی تاریکی طاری ہوجائے گی۔ ستارے گرجائیں گے زمین پر ایک سخت زلزلہ آجائے گا۔ مرد جو حقیقت کے طالب ہوتے ہیں تھوڑے رہ جائیں گے۔ اوردنیا میں کثرت سے عورتیں پھیل جائیں گی یعنی سفلی لذّات کے طالب بہت ہوجائیں گے جوسفلی خزائن اور دفائن کو زمین سے باہر نکالیں گے مگر آسمانی خزائن سے بے بہرہ ہوجائیں گے تب وہ آدم جس کا دوسرا نام ابن مریم بھی ہے بغیر وسیلہ ہاتھوں کے پیداکیاجائے گا اسی کی طرف وہ الہام اشارہ کررہا ہے جو براہین میںؔ درج ہوچکاہے اوروہ یہ ہے اردت ان استخلف فخلقت اٰدم یعنی میں نے ارادہ کیا جو اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کوپیدا کیا۔ آدم اور ابن مریم درحقیقت ایک ہی مفہوم پر مشتمل ہے۔ صرف اسقدرفرق ہے کہ آدم کالفظ قحط الرجال کے زمانہ پر ایک دلالت تامہ رکھتاہے اور ابن مریم کالفظ دلالت ناقصہ۔مگر دونوں لفظوں کے استعمال سے حضرت باری کا مدعا اور مراد ایک ہی ہے۔ اسی کی طرف اس الہام کا بھی اشارہ ہے جو براہین میں درج ہے اور وہ یہ ہے ان السّمٰوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ کنت کنزًا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ یعنی زمین و آسمان بند تھے اور حقائق ومعارف پوشیدہ ہوگئے تھے سو ہم نے اُن کو اس شخص کے بھیجنے سے کھول دیا۔ میں ایک چھپاہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں۔
اب جبکہ اس تمام تقریر سے ظاہر ہوا کہ ضرور ہے کہ آخر الخلفاء آدم کے نام پر آتا۔