جنت اور نارکی حقیقت بھی ظاہر کی گئی ہے پھر کیوں کر ممکن تھا کہ اس کی تفسیر میں غلطی کر سکتے غلطی کا احتمال صرف ایسی پیشگوئیوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ خود اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے مبہم اور مجمل رکھناچاہتا ہے اورمسائل دینیہ سے اُن کاکچھ علاقہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت دقیق راز ہے جس کے یادرکھنے سے معرفت صحیحہ مرتبہ نبوت کی حاصل ہوتی ہے اور اسی بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ابن مریم اور دجّال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونہ کے موبمومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجّال کے ستّر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابۃ الارض کی ماہیت کَمَا ہِیَ ظاہر فرمائی گئی اور صرف امثلہ قریبہ اور صور متشابہ اور امور متشاکلہ کے طرز بیان میں جہاں تک غیب محض کی تفہیم بذریعہ انسانی قویٰ کے ممکن ہے اجمالی طورپر سمجھایا گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیںؔ اور ایسے امور میں اگر وقت ظہورکچھ جزئیات غیر معلومہ ظاہر ہوجائیں تو شان نبوت پر کچھ جائے حرف نہیں۔ مگر قرآن اور حدیث پر غور کرنے سے یہ بخوبی ثابت ہوگیا ہے کہ ہماے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو یقینی اور قطعی طور پر سمجھ لیا تھا کہ وہ ابن مریم جورسول اللہ نبی ناصری صاحب انجیل ہے وہ ہرگز دوبار ہ دنیامیں نہیں آئے گا۔ بلکہ اس کا کوئی سمّی آئے گا جو بوجہ مماثلت روحانی اس کے نام کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے پائے گا۔
اور منجملہ اُن علامات کے جو اس عاجز کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں پائی جاتی ہیں وہ خدمات خاصہ ہیں جو اس عاجز کومسیح ابن مریم کی خدمات کے رنگ پر سپرد کی گئی ہیں۔ کیونکہ مسیح اُس وقت یہودیوں میں آیاتھا کہ جب توریت کا مغز اور بطن یہودیوں کے دلوں پر سے اُٹھایا گیا تھا اور وہ زمانہ حضرت موسیٰ سے چوداں ۱۴۰۰سو برس بعد تھا کہ جب مسیح ابن مریم یہودیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا۔ پس ایسے ہی زمانہ میں یہ عاجز آیا کہ جب قرآن کریم کا مغز اور
بطن مسلمانوں کے دلوں پر سے اٹھایا گیا اور یہ زمانہ بھی حضرت مثیل موسیٰ کے وقت ؔ سے اُسی زمانہ کے قریب قریب گذر چکا تھاجو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ کے درمیان میں زمانہ تھا۔