کہ یہ حرکت تو خلاف منشاء پیشگوئی ہے۔ اِسی طرح ابن صیّاد کی نسبت صاف طورپر وحی نہیں کھلی تھی اور آنحضرت کا اوّل اوّل یہی خیال تھا کہ ابن صیّاد ہی دجّال ہے۔ مگر آخر میں یہ رائے بدل گئی تھی۔ ایسا ہی سورۂ روم کی پیشگوئی کے متعلق جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط لگائی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا کہ بضع کا لفظ لغت عرب میں نو برس تک اطلاق پاتا ہے اور میں بخوبی مطلع نہیں کیا گیا کہ نوبرس کی حد کے اندر کس سال یہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ایسا ہی وہ حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ او الھجر فاذا ھی المدینۃ یثرب۔ صاف صاف ظاہرکر رہی ہے کہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد سے پیشگوئی کا محل ومصداق سمجھا تھا وہ غلط نکلا۔ اور حضرت مسیحؔ کی پیشگوئیوں کا سب سے عجب ترحال ہے۔ بارہا انہوں نے کسی پیشگوئی کے معنے کچھ سمجھے اور آخر کچھ اور ہی ظہور میں آیا۔ یہودا اسکریوطی کو ایک پیشگوئی میں بہشت کابارھواں تخت دیا لیکن وہ بکلّی بہشت سے محروم رہا۔ اور پطرس کو کبھی بہشت کی کنجیاں دیں اورکبھی اُس کو شیطان بنایا۔ اسی طرح انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا مکاشفہ کچھ بہت صاف نہیں تھا اور کئی پیشگوئیاں ان کی بسبب غلط فہمی کے پوری نہیں ہو سکیں مگر اپنے اصلی معنوں پر پوری ہوگئیں۔ بہر حال ان تمام باتوں سے یقینی طورپر یہ اصول قائم ہوتاہے کہ پیشگوئیوں کی تاویل اور تعبیر میں انبیاء علیہم السلام کبھی غلطی بھی کھاتے ہیں۔ جس قدر الفاظ وحی کے ہوتے ہیں وہ تو بلاشبہ اول درجہ کے سچے ہوتے ہیں مگر نبیوں کی عادت ہوتی ہے کہ کبھی اجتہادی طورپر بھی اپنی طرف سے اُن کی کسی قدر تفصیل کرتے ہیں۔ اور چونکہ وہ انسان ہیں اس لئے تفسیر میں کبھی احتمال خطاکا ہوتا ہے۔لیکن امور دینیہ ایمانیہ میں اس خطا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کی تبلیغ میں منجانب اللہ بڑا اہتمام ہوتا ہے اور وہ نبیوں کو عملیؔ طورپربھی سکھلائی جاتی ہیں چنانچہ ہماے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہشت اوردوزخ بھی دکھایا گیا اور آیات متواترہ مُحکمہ بیّنہ سے