اور اس کی ذلّت اور رسوائی ظاہر ہو جائے وہ بلا شبہ میّت کے ہی حکم میں ہوتا ہے۔
بعض یہ شبہ بھی پیش کرتے ہیں کہ ایک سوال کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ جب دجّال کے زمانہ میں دن لمبے ہوجائیں گے یعنی برس کی مانند یا اس سے کم تو تم نے نمازوں کا اندازہ کر لیاکرنا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلعم کو انہیں ظاہری معنوں پر یقین تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صرف فرضی طورپر ایک سوال کا جواب حسب منشاء سائل دیا گیا تھا اور اصلی واقعہ کا بیان کرنا مدعا نہ تھا بلکہ آپ نے صاف صاف فرما دیا تھا کہ سائر ایّامہ کایّامکم۔ ماسو ا اس کے یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ایسے امور میں جو عملی طور پر سکھلائے نہیں جاتے اورؔ نہ اُن کی جزئیات مخفیہ سمجھائی جاتی ہیں۔انبیاء سے بھی اجتہاد کے وقت امکانِ سہو وخطا ہے۔ مثلًا اس خواب کی بناء پر جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو بعض مومنوں کے لئے موجب ابتلاء کا ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ سے مکّہ معظمہ کا قصد کیا اور کئی دن تک منزل درمنزل طے کر کے اس بلدہ مبارکہ تک پہنچے مگر کفار نے طواف خانہ کعبہ سے روک دیا اور اُس وقت اس رؤیا کی تعبیر ظہور میں نہ آئی۔ لیکن کچھ شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی امید پر یہ سفر کیا تھا کہ اب کے سفر میں ہی طواف میسّر آجائے گا اوربلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب وحی میں داخل ہے لیکن اس وحی کے اصل معنے سمجھنے میں جو غلطی ہوئی اس پر متنبّہ نہیں کیا گیا تھا تبھی تو خداجانے کئی روز تک مصائب سفر اُٹھا کرمکہ معظمہ میں پہنچے۔ اگر راہ میں متنبّہ کیاجاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ضرور مدینہ منورہ میں واپس آجاتے پھرجب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آپ کے روبرو ہاتھ ناپنے شروع کئے تھے تو آپ کو اس غلطی پر متنبّہ نہیں کیا گیا یہاؔ ں تک کہ آپ فوت ہوگئے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی یہی رائے تھی کہ درحقیقت جس بیوی کے لمبے ہاتھ ہیں وہی سب سے پہلے فوت ہوگی۔ اِسی وجہ سے باوجودیکہ آپ کے رُوبرو باہم ہاتھ ناپے گئے مگر آپ نے منع نہ فرمایا