احادیث صحیحہ کامنشاء ہے مشرق ومغرب کا سیر کر رہا ہے اور وہ گدھا دجّال کا بنایا ہوا ہوتاجو حدیث کے منشاء کے موافق ہے اس دلیل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر ایسا گدھا معمولی طور پر کسی گدھی کے شکم سے پیدا ہوتا تو اس قسم کے بہت سے گدھے اب بھی موجود ہونے چاہیئے تھے کیونکہ بچے کی مشابہت قد وقامت اور سیر وسیاحت اور قوت وطاقت میں اس کے والدین سے ضرور ی ہے۔ لہٰذا احادیث صحیحہ کا اشارہ اسی بات کی طرف ہے کہ وہ گدھا دجّال کا اپنا ہی بنایاہو اہو گا پھر اگر وہ ریل نہیں تو اَور کیا ہے۔ ایسا ہی یاجوؔ ج ماجوج کی قومیں بھی بڑے زور سے خروج کررہی ہیں۔ دابۃ الارض بھی جابجا نظر آتا ہے۔ ایک تاریک دُخان نے بھی آسمان سے نازل ہو کر دنیا کو ڈھانک لیا ہے۔ پھر اگر ایسے وقت میں مسیح ظاہر نہ ہوتا توپیشگوئی میں کذب لازم آتا سو مسیح موعود جس نے اپنے تئیں ظاہر کیا وہ یہی عاجز ہے۔ اگر یہ شبہ پیش کیاجائے کہ دجّال کی علامتیں کامل طور پر ان انگریزپادریوں کے فرقوں میں کہاں پائی جاتی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کامل طور پر اسی رسالہ میں ثابت کر آئے ہیں کہ درحقیقت یہی لوگ دجّال معہود ہیں۔ اوراگر غور سے دیکھاجائے تو تمام علامات ان پر صادق آرہی ہیں۔ اور ان لوگوں نے بباعث اپنی صنعتوں اور تدبیرو ں اور حکیمانہ ید طولیٰ اور وسعت مالی کے ہر یک چیز گویا اپنے قابو میں کر رکھی ہے۔ اور یہ علامت کہ دجّال صرف چالیس دن رہے گا اور بعض دن برس کی طرح ہو ں گے یہ حقیقت پر محمول نہیں ہو سکتی کیونکہ بعض حدیثوں میں بجائے چالیس دن کے چالیس سال بلکہ پینتالیس برس بھی آیا ہے پھر اگر بعض دن برس کے برابرؔ ہوں گے تو اس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت بھی ہوجائے اوردجّال ہنوز باقی رہے۔ لہٰذا اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب الفاظ قابل تاویل ہیں دجّال کے فوت ہونے سے مراد اس قوم کا استیصال نہیں بلکہ اس مذہب کے دلائل اور حجج کا استیصال ہے۔ا ور کچھ شک نہیں کہ جومذہب دلائل یقینیہ کے رو سے بکلّی مغلوب ہوجائے