اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ خدائے تعالیٰ نے اگرچہ ایک طرز جدید سے قرآن کریم میں صاف طور پر بیان کر دیا کہ آخری خلیفہ اسلام کے الٰہی خلیفوں کا روحانی طور پر ایسے خلیفہ کا روپ اور رنگ لے کر آئے گا جو اسرائیلی خلیفوں میں سے آخری خلیفہ تھاؔ یعنی مسیح ابن مریم لیکن کیاوجہ کہ خدائے تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں مسیح ابن مریم کا بصراحت نام لیا۔ گو مطلب وہی نکل آیا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تا لوگ غلط فہمی سے بلا میں نہ پڑجائیں۔کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ صاف طور پر نام لے کر بیان کر دیتا کہ اس اُمّت کا آخری خلیفہ یہی مسیح ابن مریم ہی ہو گا تو نادان مولویوں کے لئے بلا پر بلاپیداہوجاتی اور غلط فہمی کی آفت ترقی کرجاتی۔سوخدائے تعالیٰ نے اپنے بیان میں دومسلک اختیار کرنا پسند رکھا۔ ایک وہ مسلک جوحدیثوں میں ہے جس میں ابن مریم کا لفظ موجود ہے۔ اور دوسر ا وہ مسلک جو قرآن کریم میں ہے جس کا ابھی بیان ہوچکا ہے۔ اب ثبوت اِس بات کا کہ وہ مسیح موعود جس کے آنے کا قرآن کریم میں وعدہ دیا گیا ہے یہ عاجز ہی ہے۔ اِن تمام دلائل اور علامات اور قرائن سے جوذیل میں لکھتا ہوں ہریک طالب حق پر بخوبی کھل جائے گا۔ از انجملہ ایک یہ ہے کہ یہ عاجز ایسے وقت میں آیا ہے جس وقت میں مسیح موعود آنا چاہیئے تھا کیونکہ حدیث الآیات بعد المأتین جس کےؔ یہ معنے ہیں کہ آیات کبریٰ تیرھویں صدی میں ظہورپذیر ہوں گی اسی پر قطعی اوریقینی دلالت کرتی ہے کہ مسیح موعود کا تیرھویں صدی میں ظہور یا پیدائش واقع ہو۔ بات یہ ہے کہ آیات صغریٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مبارک سے ہی ظاہر ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ پس بلاشبہ الآیات سے آیات کبریٰ مرادہیں جوکسی طرح سے دوسو برس کے اندرظاہر نہیں ہو سکتی تھیں لہذا علماء کا اسی پر اتفاق ہوگیا ہے کہ بعد المأتین سے مراد تیرھویں صدی ہے اور الآیات سے مراد آیات کبریٰ ہیں جو ظہور مسیح موعو د اور دجّال اور یاجوج ماجوج وغیرہ ہیں اور ہریک شخص