مجموعی عجائبات سے بہت بڑھ کر ہیں اوراُن کا انکار درحقیقت قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا انکار ہے کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں کہ جوخدائے تعالیٰ کی طرف سے صادر ہو اور اُس میں بے انتہاء عجائبات نہ پائے جائیں۔ اب یہ عذر کہ اگر ہم قرآن کریم کے ایسے دقائق ومعارف بھی مان لیں جو پہلوں نے دریافت نہیں کئے تو اس میں اجماع کی کسر شان ہے۔ گویا ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ جو پہلے اماموں کو معلوم نہیں ہوا تھا وہ ہم نے معلوم کرلیا۔ یہ خیال ان مُلّا لوگوں کا بالکل فاسد ہے۔ اُن کو سوچنا چاہیئے کہ جبکہ یہ ممکن ہے کہ بعض نباتات وغیرہ میں زمانۂ حال میں کوئی ایسی خاصیت ثابت ہو جائے جو پہلوں پر نہیں کھلی تو کیا یہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم کے بعض عجیب حقائق و معارف اب ایسے کھل جائیں جو پہلوں پر کھل نہیں سکے کیونکہ اس وقت اُن کے کھلنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہاں ایمان اورعقائد کے متعلق جو ضروری پاتے ہیں جو شریعت سے علاقہ رکھتے ہیں جو مسلمان بننے کے لئے ضروری ہیں۔ وہ تو ہر یک کی اطلاع کے لئے کھلے کھلے بیان کے ساتھ قرآن شریف میں درج ہیں لیکن وہ نکات و حقائق جوؔ معرفت کو زیادہ کرتے ہیں وہ ہمیشہ حسب ضرورت کھلتے رہتے ہیں اور نئے نئے فسادوں کے وقت نئے نئے پُر حکمت معانی بمنصۂ ظہور آتے رہتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم بذات خود معجزہ ہے اور بڑی بھاری وجہ اعجاز کی اس میں یہ ہے کہ وہ جامع حقائق غیر متناہیہ ہے۔ مگر بغیر وقت کے وہ ظاہر نہیں ہوتے۔ جیسے جیسے وقت کے مشکلات تقاضہ کرتی ہیں وہ معارف خفیہ ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ دیکھو دنیوی علوم جو اکثر مخالف قرآن کریم اور غفلت میں ڈالنے والے ہیں۔ کیسے آج کل ایک زور سے ترقی کر رہے ہیں اورزمانہ اپنے علوم ریاضی اور طبعی اور فلسفہ کی تحقیقاتوں میں کیسی ایک عجیب طور کی تبدیلیاں دکھلا رہا ہے۔ کیا ایسے نازک وقت میں ضرور نہ تھاکہ ایمانی اور عرفانی ترقیات کے لئے بھی دروازہ کھولا جاتا۔ تا شرور محدثہ کی مدافعت کے لئے آسانی پیداہوجاتی۔ سو یقینًا سمجھوکہ وہ