چُھپے ہوئے ہیں جو ہریک قسم کے ادیان فلسفیہ وغیر فلسفیہ کو مقہور و مغلوب کرتے ہیں اُن کے ظہور کا زمانہ یہی تھا۔ کیونکہ وہ بجُز تحریک ضرورت پیش آمدہ کے ظاہر نہیں ہو سکتے تھے سو اب مخالفانہ حملے جونئے فلسفہ کی طرف سے ہوئے تو اُن معارف کے ظاہر ہونے کا وقت آگیا اور ممکن نہیں تھا کہ بغیر اس کے کہ وہ معارف ظاہر ہوں اسلام تمام ادیان باطلہ پر فتح پا سکے کیونکہ سیفی فتح کچھ چیزنہیں اورچند روزہ اقبال کے دورہونے سے وہ فتح بھی معدوم ہوجاتی ہے۔ سچی اور حقیقی فتح وہ ہے جومعارف اورحقائق اورکامل صداقتوں کے لشکر کے ساتھ حاصل ہو۔ سووہ یہ فتح ہے جو اب اسلام کو نصیب ہو رہی ہے۔ بلاشبہ یہ پیشگوئی اسی زمانہ کے حق میں ہے اور سلف صالح بھی ایسا ہی سمجھتے آئے ہیں۔ یہ زمانہ درحقیقت ایک ایسا زمانہ ہے جو بالطبع تقاضاکررہا ہے جو قرآن شریف اپنے اُن تمام بطون کو ظاہر کرے جو اُس کے اندرمخفی چلے آتےؔ ہیں کیونکہ بطنی معارف قرآن کریم کے جن کا وجود احادیث صحیحہ اور آیات بیّنہ سے ثابت ہے فضول طور پر کبھی ظہور نہیں کرتے بلکہ یہ معجزہ فرقانی ایسے ہی وقت میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے جبکہ اس روحانی معجزہ کے ظہور کی اشد ضرورت پیش آتی ہے۔ سو اس زمانہ میں کامل طور پر یہ ضرورتیں پیش آگئی ہیں۔ انسانوں نے مخالفانہ علوم میں بہت ترقی کرلی ہے اور کچھ شک نہیں کہ اگر اس نازک وقت میں بطنی علوم قرآن کریم کے ظاہر نہ ہوں گے تو موٹی تعلیم جس پر حال کے علماء قائم ہیں کبھی اورکسی صورت میں مقابلہ مخالفین کا نہیں کر سکتے اور ان کو مغلوب کرنا تو کیا خود مغلوب ہوجانے کے قوی خطرہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہریک فہیم کوجلدی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اللہ جلَّ شَانُہٗ کی کوئی مصنوع دقائق وغرائب خواص سے خالی نہیں۔ اور اگر ایک مکھی کے خواص اور عجائبات کی قیامت تک تفتیش و تحقیقات کرتے جائیں تو بھی کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ تو اب سوچنا چاہیئے کہ کیا خواص و عجائبات قرآ ن کریم کے اپنے قدر واندازہ میں مکھی جتنے بھی نہیں۔ بلا شبہ وہ عجائبات تمام مخلوقات کے