جس کا محض خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے تولّد ہوتا۔ جس کا آسمان پر ابن مریم نام ہے تو کیوں خدائے تعالیٰ کی قادریّت اس ابن مریم کے پیداکرنے سے مجبور رہ سکتی۔ سو اُس نے محض اپنے فضل سے بغیر وسیلہ کسی زمینی والد کے اس ابن مریم کوروحانی پیدائش اورروحانی زندگی بخشی جیسا کہ اس نے خود اس کو اپنے الہام میں فرمایا ثم احییناک بعد ما اھلکنا القرون الاولٰی و جعلناک المسیح ابن مریم۔ یعنی پھرہم نے تجھے زندہ کیا بعد اس کے جو پہلے قرنوں کو ہم نے ہلاک کردیا اور تجھے ہم نے مسیح ابن مریم بنایا یعنی بعد اس کے جو عام طور پر مشائخ اور علماء میں موت روحانی پھیل گئی۔ انجیل میں بھی اِسی کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح ستاروں کے گرنے کے بعد آئے گا۔ ابؔ ا س تحقیق سے ثابت ہے کہ مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے۔قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ ۱۴۰۰سو برس تک مدّت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیا ء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت 33 ۱؂ جس کے بحساب جمل ۱۲۷۴عد د ہیں۔ اسلامی چاند کی سلخ کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے اور یہ آیت کہ 33۲؂ درحقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے کیونکہ تمام ادیان پر روحانی غلبہ بجُز اس زمانہ کے کسی اور زمانہ میں ہرگز ممکن نہیں تھا وجہ یہ کہ یہی زمانہ ہے کہ جس میں ہزارہا قسم کے اعتراضات اور شبہات پیدا ہوگئے ہیں اور انواع اقسام کے عقلی حملے اسلام پر کئے گئے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ فرماتا ہے 33۳؂ یعنی ہریک چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں مگر بقدر معلوم اور بقدر ضرورت ہم اُن کو اُتارتے ہیں۔ سو جس قدر معارف و حقائق بطون قرآن کریم میں