دو سلسلوں کی مماثلت میں یہی قاعدہ ہے کہ اوّل اور آخر میں اشد درجہ کی مشابہت اُن میں ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک لمبے سلسلہ اور ایک طولانی مدت میں تمام درمیانی افراد کا مفصل حال معلوم کرنا طول بلا طائل ہے۔ پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزّل اور اپنی جلالی اورجمالی حالت کی رو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق و مشابہ ومماثل ہو گا اور یہ بھی بتلاد یاکہ نبی عرؔ بی امّی مثیل موسیٰ ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر بتلایا گیا کہ جیسے اسلام میں سردفتر الٰہی خلیفوں کا مثیل موسیٰ ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تختِ عزت کے اوّل درجہ پر بیٹھنے والا اور تمام برکات کا مصدر اوراپنی روحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم باعتبار نسبت تامہ وہ مسیح عیسیٰ بن مریم ہے جو اس اُمّت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہوگیا ہے اور فرمان جَعَلْنَاکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ نے اُس کودرحقیقت وہی بنادیا ہے 3 ۱؂۔ اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمدؐ جلالی نام ہے اور احمد جمالی۔ اور احمد اور عیسیٰ اپنے جمالی معنوں کی رُو سے ایک ہی ہیں۔ اسی کی طرف یہ اشارہ ہے 33 ۲؂۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیںیعنی جامع جلال و جمال ہیں۔ لیکن آخری زمانہ میں برطبق پیشگوئی مجرّد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا۔ وہ ؔ حی و قیوم خدا جو اس بات پر قادر ہے جو انسان کو حیوان بلکہ شرّ الحیوانات بنا دے جیسا کہ اس نے فرمایا ہے 33 ۳؂ اور فرمایا کہ 3۴؂ کیا وہ ایک انسان کو دوسرے انسان کی صورت مثالی پر نہیں بنا سکتا۔33 ۵؂۔ پھر جب کہ انسانیت کی حقیقت پر فنا طاری ہونے کے وقت میں ایک ایسے ہی انسان کی ضرورت تھی