کیونکہ ایمانی فراست اور زیرکی بالکل اُن میں سے اُٹھ گئی تھی اور اُن کے نفوس مظلمہ پر جہل غالب آگیا تھا اور سفلی مکاریاں اور کراہت کے کام اُن سے سرزد ہوتے تھے اورجھوٹ اور ریاکاری اور غدّاری اُن میں انتہا تک پہنچ گئی تھی۔ ایسے وقت میں اُن کی طرف مسیح ابن مریم بھیجا گیا تھا جو بنی اسرائیل کے مسیحوں اور خلیفوں میں سے آخری مسیح اور آخری خلیفۃ اللہ تھا جو برخلاف سُنّت اکثر نبیوؔ ں کے بغیر تلوار اور نیزہ کے آیا تھا۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ شریعت موسوی میں خلیفۃ اللہ کو مسیح کہتے تھے اور حضرت داؤد کے وقت اور یا اُن سے کچھ عرصہ پہلے یہ لفظ بنی اسرائیل میں شائع ہوگیا تھا۔ بہرحال اگرچہ بنی اسرائیل میں کئی مسیح آئے لیکن سب سے پیچھے آنے والا مسیح وہی ہے جس کانام قرآن کریم میں مسیح عیسیٰ ابن مریم بیان کیاگیا ہے۔ بنی اسرائیل میں مریمیں بھی کئی تھیں اور ان کے بیٹے بھی کئی تھے لیکن مسیح عیسیٰ بن مریم یعنی اِن تینوں ناموں سے ایک مرکب نام بنی اسرائیل میں اُس وقت اورکوئی نہیں پایا گیا۔ سو مسیح عیسیٰ ابن مریم یہودیوں کی اس خراب حالت میں آیا جس کا میں نے ابھی ذکرکیا ہے۔ آیات موصوفہ بالا میں ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدائے تعالیٰ کا اس اُمّت کے لئے وعدہ تھا کہ بنی اسرائیل کی طرز پر ان میں بھی خلیفے پیدا ہوں گے۔ اب ہم جب اس طرز کو نظر کے سامنے لاتے ہیں تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ضرور تھا کہ آخری خلیفہ اس اُمّت کا مسیح ابن مریم کی صورت مثالی پر آوے اور اس زمانہ میں آوے کہ جو اُس وقت سے مشابہ ہو جسؔ وقت میں بعد حضرت موسیٰ کے مسیح ابن مریم آئے تھے یعنی چودھویں صدی میں یا اس کے قریب اُسکا ظہور ہو اور ایسا ہی بغیر سیف وسنان کے اور بغیر آلات حرب کے آوے جیسا کہ حضرت مسیح ابن مریم آئے تھے اور نیز ایسے ہی لوگوں کی اصلاح کیلئے آوے جیسا کہ مسیح ابن مریم اُس وقت کے خراب اندرون یہودیوں کی اصلاح کے لئے آئے تھے۔ اور جب آیات ممدوحہ بالا کو غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے اندر سے یہ آوازسُنائی دیتی ہے کہ ضرور آخری خلیفہ اس اُمّت کا جو چودھویں صدی کے سر پر ظہور کرے گا حضرت مسیح کی صورت مثالی پر آئے گا اور بغیر آلاتِ حرب ظہور کرے گا