جما دیا جائے گا اور خداخوف کے دنوں کے بعد امن کے دن لائے گا۔ خالصًا اُسی کی بندگی کریں گے اور کوئی اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ لیکن اس زمانہ کے بعد پھرکفر پھیل جائے گا۔ مماثلت تامہ کا اشارہ جو کما استخلف الذین من قبلہم سے سمجھاجاتا ہے۔ صاف دلالت کررہا ہے کہ یہ مماثلت مدت ایام خلافت اور خلیفوں کی طرز اصلاح اورؔ طرزِ ظہور سے متعلق ہے۔سو چونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل میں خلیفۃ اللہ ہونیکا منصب حضرت موسیٰ سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت بہ نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ (سو) برس کے پورے ہوتے تک حضرت عیسیٰ ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہوا حضرت عیسیٰ ابن مریم ایسے خلیفۃ اللہ تھے کہ ظاہری عنان حکومت اُن کے ہاتھ میں نہیں آئی تھی اور سیاست ملکی اور اس دنیو ی بادشاہی سے ان کو کچھ علاقہ نہیں تھا اور دنیا کے ہتھیاروں سے وہ کچھ کام نہیں لیتے تھے بلکہ اس ہتھیار سے کام لیتے تھے جو اُن کے انفاس طیّبہ میں تھا۔ یعنی اس موجّہ بیان سے جو اُن کی زبان پرجاری کیا گیا تھا جس کے ساتھ بہت سی برکتیں تھیں اور جس کے ذریعہ سے وہ مرے ہوئے دلوں کو زندہ کرتے تھے اور بہرے کانوں کو کھولتے تھے اور مادر زاد اندھوں کو سچائی کی روشنی دکھا دیتے تھے اُن کا وہ دم ازلی کافر کو مارتا تھا اور اُس پر پوری حجت کرتا تھا لیکن مومن کو زندگی بخشتا تھا۔ وہ بغیر باپ کے پیدا کئے گئے تھے اور ظاہری اسباب اُن کے پاس نہیں تھے اور ہر باتؔ میں خدائے تعالیٰ اُن کا متولّی تھا۔ وہ اُس وقت آئے تھے کہ جبکہ یہودیوں نے نہ صرف دین کو بلکہ انسانیت کی خصلتیں بھی چھوڑ دی تھیں اوربے رحمی اور خود غرضی اور کینہ اور بُغض اور ظلم اور حسداور بے جا جوش نفس امّارہ کے اُن میں ترقی کر گئے تھے۔ اور نہ صرف بنی نوع کے حقوق کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا بلکہ غلبہ شقاوت کی وجہ سے حضرت محسنِ حقیقی سے عبودیت اور اطاعت اور سچے اخلاص کا رشتہ بھی توڑ بیٹھے تھے۔ صرف بے مغز استخوان کی طرح توریت کے چند الفاظ اُن کے پاس تھے جو قہر الٰہی کی وجہ سے ان کی حقیقت تک وہ نہیں پہنچ سکتے تھے