وہ تنزّل کا زمانہ ہو جو یہودیوں پر اُن کے آخری دنوں میں آیا تھا۔
اسؔ زمانہ کے بعض نوتعلیم یافتہ ایسے شخص کے آنے سے ہی شک میں ہیں جو ابن مریم کے نام پر آئے گا وہ کہتے ہیں کہ یہ عظیم الشان شخص جو حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے اگر واقعی طور پر ایسا آدمی آنے والا تھا تو چاہیئے تھا کہ قرآن کریم میں اس کا کچھ ذکر ہوتا جیسا کہ دابۃ الارض اور دخان اور یاجوج ماجوج کا ذکر ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ سراسر غلطی پر ہیں خدائیتعالیٰ نے اپنے کشف صریح سے اس عاجز پر ظاہرکیا ہے کہ قرآن کریم میں مثالی طورپر ابن مریم کے آنے کا ذکر ہے اور وہ یوں ہے کہ خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے 3333 ۱ اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو موسیٰ کی طرح اور کفار کو فرعون کی طرح ٹھہرایا۔ اورپھر دوسری جگہ فرمایا333333333
الجزو نمبر ۱۸سورۃ النور ۲ یعنی خدائے تعالیٰ نے اس اُمّت کے مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے پہلوں کو بنایا تھا یعنی اُسی طرز اور طریق کے موافق اور نیز اُسی مدت اور زمانہ کے مشابہ اور اُسی صورت جلالی اور جمالی کی مانند جو بنی اسرائیل میں سنّت اللہ گذر چکی ہے اس اُمّت میں بھی خلیفے بنائے جائیں گے اور اُن کا سِلسلہ خلافت اس سلسلے سے کم نہیں ہو گا۔ جو بنی اسرائیل کے خلفاء کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور نہ ان کی طرز خلافت اس طرز سے مبائن و مخالف ہوگی جو بنی اسرائیل کے خلیفوں کے لئے مقرر کی گئی تھی۔پھر آگے فرمایا ہے کہ ان خلیفوں کے ذریعے سے زمین پر دین