اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب جہل اور بے ایمانی اور ضلالت جو دوسری حدیثوں میں دُخان کے ساتھ تعبیر کی گئی ہے دنیا میں پھیل جائے گی اور زمین میں حقیقی ایمانداری ایسی کم ہوجائے گی کہ گویا وہ آسمان پر اُٹھ گئی ہو گی اور قرآن کریم ایسا متروک ہوجائے گا کہ گویا وہ خدائے تعالیٰ کی طرف اٹھایا گیا ہو گا۔ تب ضرور ہے کہ فارس کی اصل سے ایک شخص پید ا ہو اور ایمان کو ثریا سے لے کر پھر زمین پر نازل ہو۔ سو یقینًا سمجھو کہ نازل ہوؔ نے والا ابن مریم یہی ہے جس نے عیسیٰ بن مریم کی طرح اپنے زمانہ میں کسی ایسے شیخ والد روحانی کو نہ پایا جو اس کی روحانی پیدائش کاموجب ٹھہرتا۔ تب خدائے تعالیٰ خود اس کا متولّی ہوا اور تربیت کی کنار میں لیا اور اس اپنے بندے کا نام ابن مریم رکھا۔ کیونکہ اُس نے مخلوق میں سے اپنی روحانی والدہ کا تو مُنہ دیکھا جس کے ذریعہ سے اُس نے قالب اسلام کا پایا لیکن حقیقت اسلام کی اس کو بغیر انسانوں کے ذریعہ کے حاصل ہوئی۔ تب وہ وجود روحانی پا کر خدائے تعالیٰ کی طرف اُٹھایا گیا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے ماسواسے اسکو موت دیکر اپنی طرف اُٹھالیا اور پھر ایمان اور عرفان کے ذخیرہ کے ساتھ خلق اللہ کی طرف نازل کیا سو وہ ایمان اور عرفان کا ثریا سے دُنیا میں تحفہ لایا اور زمین جو سُنسان پڑی تھی اور تاریک تھی اس کے روشن اورآباد کرنے کے فکر میں لگ گیا۔ پس مثالی صورت کے طور پر یہی عیسیٰ بن مریم ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا کیاتم ثابت کر سکتے ہو کہ اس کا کوئی والد روحانی ہے۔ کیا تم ثبوت دے سکتے ہو کہ تمہارے سلاسل اربعہ میں سے کسی سلسلہ میں یہ داخل ہے۔ پھر اگرؔ یہ ابن مریم نہیں تو کون ہے ؟
اور اگر اب بھی تمہیں شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ جزئی اختلافات کی وجہ سے *** بازی صدیقوں کاکام نہیں۔ مومن لعّان نہیں ہوتا۔ لیکن ایک طریق بہت آسان ہے اور وہ درحقیقت قائم مقام مباہلہ ہی ہے جس سے کاذب اور صادق او ر مقبول اور مردود کی تفریق ہوسکتی ہے۔ اور وہ یہ ہے جو ذیل میں موٹی قلم سے لکھتا ہوں۔