کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاحی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اُس فعل میں بھی فتور آ جاتا ہے۔ پھربعلت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں خواب میں ہوں یا بیداری میں۔ لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے ارباب طلب اور اصحاب سلوک کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و ام و حضور و استیلاء شوق و غلبہ محبت ایک حالت غیبت حواس اُس پر وارد ہو جاتی ہے۔ جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے۔ اُس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بیدار ہے۔ خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اُس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔ یعنی جس مکان میں ہے اُس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کُل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ صرف کسی قدر بجذیہ غیبی، غیبت حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنے رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے۔ یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے۔ دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناء اتم اعنی غایت المعراج و نہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں۔ اوّل سمجھنا چاہئے کہ فناء اتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارت اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فناء اتم مراد اُس حالت سے ہے کہ طالبِ حق خلق ارادت اور نفس سے بکلی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت اپنی میں بکلی کھویا جاوے۔ یہاں تک کہ اُسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اُسی کے ساتھ سنتا ہو۔ اور اُسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو۔ پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال اور عین وصال ایک بیچون اور بیچگون نور ہے کہ جس کو اہل وصول شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب طالبِ کمال وصول کا خدا کے لئے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لئے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ دا کے لئے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقاء کو مستلزم ہے۔ پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اُس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے۔ پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے۔ غلبہ شہود کی ایک