مکتوب نمبر۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقع صحیحہ ہوگا۔ مگر اس بات کے لئے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حدفعل میں آوے۔ بہت سی محنتیں درکار ہیں۔ خواب کے واقعات اُس پانی سے مشابہ ہیں جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کے رنگ میں واقعہ ہے۔ جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جان کنی اور محنت چاہئے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکُلّی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفا نکل آوے۔ ہمت مردان مدد خدا۔ صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے۔ والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا
گونید سنگ لعل شود در مقام صبر
آری شود ولیک بخون جگر شود
گرچہ و صالش نہ بکوشش وہند
ہر قدر ایدل کہ توانی بکوش
آپ کی ملاقات کے لئے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں۔ بیوقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا۔ اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں۔ اُس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بیوقت بیت اللہ کی زیادت کی اور بجز ایک کوٹھ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا۔ دل سخت ہو گیا۔ علیٰ ھذا القیاس ملاقات جسمانی میں بھی ایک قسم کی ابتلاء پیش آ جاتے ہیں۔ الاّ ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آیا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے۔ آپ نے پہلے یہ سوال کیا کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے۔ خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا۔ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اُس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبہ رطوبت مزاجی کہ جو دماغ پر طاری ہوتی ہے۔ حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں۔ پس جب خواب کو تعطل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیازاور تیفظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالتِ خواب میں بباعث تعطل حواس نہیں رہتا۔