ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے۔ صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے۔ سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم لکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے۔ کبھی شہود تام بیخبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا ہے اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے۔ اُس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے۔ فلما تجلی ربہ للجیل جعلہ وکاد خرموسیٰ صعقا۔ لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے وما زاغ البصرو ماطغی۔ یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی۔ پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے وجوہ یومئذٍ فاضرہ الی ربھا ناظرۃ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (۱۸؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ) مکتوب نمبر۸ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند کریم آپ کو خوش و خورم رکھے۔ آپ دقائق متصوفین میں سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے۔ محض حضرت ارحم الراحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجالس صالحین میں فروغ دیا ہے۔ ورنہ منہ آنم کہ من دانم۔ کاروبار قادر مطلق سے سخت حیرانی ہے کہ نہ عابد، نہ عالم، نہ زاہد کیونکر اخوان مومنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے۔ اس کی عنایات کی کیا ہی بلند شان ہے۔ اور اُس کے کام کیسے عجیب ہیں۔ پسندید گانے بجائے رسند زما کہترا نش چہ آمد پسند میں آپ کے سوال کا جواب لکھتا ہوں۔ آپ نے حالت فنا فی الفناء کے یہ تعریف لکھ کر کہ وہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں شعول سے بھی بے شعوری ہوتی ہے۔ یہ سوال پیش کیا ہے کہ اس مرتبہ فناء میں کہ جو چہارم مرتبہ منجملہ مراتب فنا ہے اور حالت سکریت میں کیا فرق ہے اور سکریت سے مراد آپ نے خواب غرقی لی ہے۔ یعنی ایسا سونا جس میں کچھ خبر نہ رہے۔ سو جو کچھ خدا نے میرے دل میں اس کا جواب ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ سکریت اور فنا فی الفنا میں موجب اور علت کا فرق یعنی سکریت کی حالت میں موجب اور علت ایک ظلمت ہے۔ جو سکریت کے پیدا ہونے کا باعث ہے۔ وجہ یہ کہ سکریت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ رطوبت مزاجی دماغ پر سخت غلبہ کر لیتی ہے یہاں تک کہ دماغی قوتوں کو ایسا دبا لیتی ہے کہ انسان بے ہوش ہو کر سو