لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آ کر اُس کی تصدیق کر لو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہو جائے گا۔ مَیں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہئے کہ اس جگہ خود اپنے بھائیوںکی شہادت سے حق الامر تم پر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارے میں دَم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سیوم میں چھپ چکا ہے سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُّ الرُّعْبِ اب دیکھئے۔ اس سے زیادہ اور کیا صفائی ہوگی کہ خداوندکریم مخالفین کو نہ صرف شنیدہ پر رکھنا چاہتا ہے بلکہ دیدہ کے مرتبہ پر پہنچانا چاہتا ہے۔ کل صوابی ضلع پشاور سے اس جگہ کے آریہ سماج کے نام صوابی آریہ سماج نے ایک خط بھیجا ہے کہ حصہ سیوم براہین احمدیہ میں تمہاری شہادتیں درج ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ سو اگرچہ یہ ہندو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں مگر ممکن نہیں کہ سچ کو چھپا سکیں۔ اس لئے فکر میں ہوئے ہیںکہ اپنے بھائیوں کو کیا لکھیں۔ اگر شرارت سے جھوٹ لکھیں گے تو اس میں روسیاہی ہے اور آخر پردہ فاش ہوگا اور سچ لکھنے میں مصلحت اپنے مذہب کی نہیں دیکھتے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کیونکر پیچھا چھڑاتے ہیں۔ شاید جواب سے خاموش رہیں۔ یہ اسرار جو خداوند کریم اس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر اُس کی عادت نہیں تھی جو ان کے اظہار کی اجازت دے بلکہ اسرار ربانی کے ظاہر کرنے میں اندیشہ سلب ولایت ہے لیکن اس زمانہ میں ان باتوں کا ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ گو دوسرے لوگ اپنی نافہمی سے اس اظہار کو ریاکاری میں داخل کریں یا کچھ اور سمجھیں مگر یہ عاجز اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیںگے اور خداوند کریم نے اس عاجز کو عام فقرا کے برخلاف طریقہ بخشا ہے جس میں ظاہر کرنا بعض اسرار ربّانی کا عین فرض ہے۔ والسلام علیکم وعلٰی اخوانکم عن المؤمنین۔ (۳؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ)