کوشش کی اور اُن کے بعض نامی گرامی آدمیوں نے بڑی محنت سے ویدوں کو پڑھا۔ سو آخر کار انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ وید مخلوق پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ابھی پنڈت شیونرائن نے تنقیح سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم بکثرت ہے اور نیز کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ گورنر بمبئی نے ہندؤوں کی تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ گورنر اپنی قوم میں فضیلت علمی سے نہایت مشہور ہے اور آنریبل کے لقب سے ملقب ہے۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۹ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر مقامات میں بید میں خداکا ذکر بھی ہے۔ لیکن بید کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو انسان سے برتر پیدا کیا ہے۔ سُو اُن دیوتاؤں کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ دیوتا جن کی پرستش کا وید میں حکم ہے۔ پانی اور آگ اور خاک اور ستاری وغیرہ ہیں۔ اب دیکھئے! کہ اس آنریبل نے بھی ہماری رائے سے اتفاق کیا۔ پھر پنڈت سردہا رام پھلوری نے ایک رسالہ بنایا ہے اس میں تو علاوہ مخلوق پرستی کے مورتی پوجا یعنی بت پرستی کا ثبوت بھی دیا ہے لیکن برہمو سماج والوں نے ان دلائل کو قبول نہیں کیا اُن کا بیان ہے کہ ویدوں میں دیوتا پرستی تو ضرور ہے اور بِلاشُبہ آگ و پانی وغیرہ چیزوں کی پرستش کے لئے اس میں صریح حکم ہے اور اُن چیزوں کی حمدو ثنا ہے لیکن مورتی پوجا کا صریح طور پر اس میں حُکم نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ بابو نوین چند رائے نے جو اَب لاہور میں موجود ہیں اور ویدوں کو سنسکرت میں پڑھا ہوا ہے اپنی کتاب اکشاستک میں اُس کو بہ تفصیل لکھا ہے اُن کی یہ اپنی عبارت ہے کہ برتمالو جن کا بدہان بیدوں میں نہیں پایا جاتا۔ مخلوق پرستی کی تعلیم بھی اور کسی جگہ نہیں۔ اس کا یہ باعث ہے کہ وید ایک شخص کی تالیف نہیں ہے۔ وید متفرق لوگوں کے خیالات ہیں۔ پس جن پر مخلوق پرستی غالب ہے اُنہوں نے اپنے کلام میں مخلوق پرستی کی تعلیم کے اور جو لوگ کچھ توحید پسند کرتے تھے اُنہوں نے توحید میں گفتگو کی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں پروفیسر ولسن صاحب کی یہ رائے ہے کہ جہاں تک ہم نے ویدوں کو دیکھا ہے ان تمام مواضع میں مخلوق پرستی بھری ہوئی ہے اور خالق الکائنات کا نام و نشان۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ جن ویدوں کا یہ حال ہے کہ باتفاق تمام محققین کے مخلوق پرستی کی تعلیم کرتے ہیں۔ اُن کی تعریف کرتے وقت خدا سے ڈرنا چاہئے اور جو منشی صاحب