وید میں نہیں ہے کیونکہ یوں تو وید میں بیسیوں دیوتاؤں کی پرستش کا ذکر ہے لیکن برہما، وشن، مہادیو کا کہیں نشان نہیں۔ ہاں وشن کی پرستش کے لئے ایک شُرتی آئی ہے مگر وہاں وشن کے معنی سورج ہیں۔ سورج وید کے دیوتاؤں میں سے ایک اوسط درجہ کا دیوتا ہے جس کا مرتبہ اگنی دیوتا سے کچھ نیچا اور بعض دوسرے دیوتاؤںسے کچھ اونچا ہے۔ اب دیکھئے منشی صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ ہندؤں میں باوجود حق کے لئے اوم کا لفظ جو اسم ذات ہی قرار دیا گیا ہے کیاافسوس کا مقام ہے کہ منشی صاحب نے ایک ناواقف آدمی کی تحریر فضول پر اعتماد کلی کر کے اوم کے لفظ کو اسم ذات مقرر کر دیا۔ حالانکہ ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ اوم کا لفظ ان متاخر مشرکین ہنوذ کا ایجاد ہے جنہوں نے برہما، وشن، مہادیو کی صورتوں کے پرستش اختیار کی تھی اور اب کرتے ہیں۔ان کی دانشمند پنڈتوں میں سے کوئی بھی اس بات سے ناواقف نہیں کہ اوم کا لفظ اسی ترہمورتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختراع کیا گیا ہے۔ خدا سے اور خدا کی ذات سے اس کو کچھ علاقہ نہیں۔ بھلا اگر منشی صاحب کے نزدیک یہ اسم ذات ہی ہے تو پھر کئی پنڈت جیسے دیانند، کھڑک سنگھ، پنڈت شاستری صاحب وغیرہ جو اب تک جیتے جاگتے موجود ہیں۔ اُن کی شہادت اپنے بیان پر پیش کریں۔ واضح رہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے مخلوق پرست ہیں۔ ایک تو وہ جو صرف وید کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور یہ فرقہ بہت کم پایا جاتا ہے اور دوسرے وہ گروہ جنہوں نے ترہمورتی کا مذہب ہزاروں برس کے بعد وید کے نکالا ہے۔ وہ برہما، وشن، مہادیو کو مانتے ہیں اور ادم کے لفظ کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان دیوتاؤں کے ناموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہرحال ہماری بحث صرف وید سے متعلق ہے اور ہر چند ہم جانتے ہیں کہ اُپ نشدوں میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ہم نے اوّل سے آخر تک اُپ نشدین غور سے پڑھے ہیں اور اُن کے ذلیل اور غلط خیالات پر بفضل خداوند ہادی مطلق اطلاع پائی ہے لیکن ہم کو ان کتابوں کی تفتیش سے کچھ بھی غرض نہیں۔ جس حالت میں خود ہندوؤں کے محققین اُن اُپ نشدوں کو برہمن پشتک جانتے ہیں تو پھر ہم کوکیا ضرور ہے کہ ان میں کچھ زیادہ طول کلام کریں۔ رہا وید سو ان میں جس قدر مخلوق پرستی ہے اُس کو تمام جاننے والے جانتے ہیں۔ پہلا وید اگنی کی ہی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ ۳۷ منتر تو اُس کی تعریف میں لکھے