نہیں۔ اُسی سے منشی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ آپ نشدین جن کا بطور مختصر ترجمہ دارالشکوہ نے کیا یہ حقیقت میں وید ہی ہیں۔ یہ کیا چیز ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دارالشکوہ کے وقت میں وید ایک مدفون اور مخفی چیز کی طرح تھا اور مسلمانوںکو اُس کی حقیقت کی خبر نہیں تھی۔ سو جب دارالشکوہ نے ہندو پنڈتوں سے کچھ وید کا ترجمہ چاہا تو انہوں نے اندیشہ کیا کہ اگر ہم مسلمانوں پر اصل وید کی حقیقت ظاہر کریں گے تو ہمارا پردہ اوڑ جائے گا بہتر ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح اُس کو بھی دام میں لاویں اور جہاں تک ہو سکے اس کے مزاج میں بھی کچھ الحاد ڈالیں تو اُنہوں نے اُس کو ناواقف سمجھ کر بعض اُپ نشدوں کا ترجمہ کروایا اور اب کھل گیا کہ وہ ترجمہ بھی صحیح نہیں۔بہرحال دارالشکوہ نے کمال غلطی کھائی کہ اُپ نشدون کو وید سمجھ بیٹھا اور اُس کے بہت سے خیالات پریشان تھے جن کی منشی صاحب کو خبر نہیں۔ چغتائی سلطنت پر پہلے آفت یہی نازل ہوئی تھی کہ اکبر اور اُس کے بعض بدنصیب نسل نے کلام الٰہی کو جیسا کہ چاہے قدر نہیں کی تھی اور ہندؤں کے شرک آمیز اور غلط گیان کی تلاش میں پڑ گئے۔ اب ہم اس بات کو چھوڑ کر پروفیسر مذکور کی وید کی نسبت رائے لکھتے ہیں۔ وہ اپنی تمہیدی تقریر میں جو وید کی تفسیر کے پہلے لکھی ہے تحریر کرتے ہیں کہ حقیقت میں وید کے کسی فقرہ سے جو ہم کے اب تک دیکھے ہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وید کے مصنّف پیدا کنندہ عالم کے معتقد تھے اور ہندؤں کے پرستش کے دیوتاؤں کی جو وید میں لکھے ہیں۔ جیسے آگ، پانی، چاند، سورج اُن کی تعریفوں کی عبارت ایسی ہے جس میں صریح مخلوق کی صفتیں پائی جاتی ہیں اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ لفظ آدم کہ جو پہلے زمانہ کے مذہب ہنوذ کی نشانی ہے اُس کا وید میں بالکل ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان تینوں دیوتاؤں کے نام کا خلاصہ ہے۔ یعنی برہما کے اخیر کا الف لیا گیا اور وشن کی واؤ ڈالی گئی اور مہادیو کا میم لیا گیا۔ ان تینوں کے جوڑ سے آدم بن گیا اور تمام پنڈتوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اوم کا لفظ ترہمورتی مذہب کا ایجاد ہے۔ مگر ترہمورتی مذہب یعنی جس میں تین مورتوں کی پرستش کا ذکر ہے