آپ کی طرح توفیق نہیں دی گئی۔
خداوندکریم آپ کو دنیا و دین میں اس کا اجر بخش کر اس عاجز کو دکھاوے اور وہ تو بغایت درجہ کریم و رحیم ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اخلاص سے، صدق سے، استقامت سے، خالصاً اُس کے لئے کوئی محنت اختیار کرے اور وہ اُس کی محنت کو ضائع کرے اور اُس کا کچھ اجر نہ دے۔ اس جناب میں راستبازوں کی محنتیں ہرگز ضائع نہیں ہوتیں اور مخلصانہ کوشش ہرگز برباد نہیں جاتی۔ جب ایک انسان تمام تر اخلاص سے خالصاً للہ سعی بجا لاوے اور ایک مدت تک اُس کی سعی اور کوشش اور محنت اور مشقت کا سلسلہ جاری رہے اور ثابت قدمی اور استقامت اور وفا اور حسن ظن میں کچھ فرق نہ آوے بلکہ اپنے سینہ میں انشراح اور اپنی طبیعت میں انبساط پاوے اور اپنے کاموں سے خداوندکریم پر کچھ احسان نہ سمجھے تو جاننا چاہئے کہ اُس کے اجر کا وقت نزدیک ہے۔ وَاللّٰہُ لَاْ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحَسْنِیْنِ۔ مبارک وہ لوگ جو خدمت سے سیر نہ ہوں اور جلدی نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ مولیٰ کریم کیسا خادم نواز ہے۔ عیالداری کے ترددات آپ کو ہوں گے۔ مگر اُن ترددات سے خداوند کریم بے خبر نہیں۔ جن فکر کی باتوں کو ایک عاجز بندہ رات کو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا سوچا کرتا ہے یا دن کو اپنے گھر میں جا کر بعض وقت یہ تنگیاں اس پر آ پڑتی ہیں ان سب تنگیوں اور تکلیفوں کو خداوندکریم اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کچھ دنوں تک اپنے بند ہ کو ابتلا میں رکھتا ہے۔ پھر یک مرتبہ نظر عنایت سے دیکھتا ہے اور اُس پر وہ دروازے کھولے جاتے ہیں جن کی اُس کو کچھ خبر نہیں تھی وھویتولی الصالحین۔ کیا جس کا خدا حي، قیوم، قادر، مہربان موجود ہے وہ کچھ غم کر سکتا ہے۔ غم اور ایمان کامل ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔
والسلام
۲۵؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی فضل رسول صاحب کے خط کی نقل معہ کارڈ پہنچ گئے اور میں نے اُس دل آزار تقریر کو تمام و کمال پڑھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ