اور مدارالمہام جونہ گڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اُس کا ایفا نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے نااُمید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے۔ اس کو ایک دفعہ اپنے وسیع خلق سے محروم نہ کریں۔ (۲۱؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ شعبان ۱۳۰۰ھ) مکتوب نمبر۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا عنایت نامہ آن مخدوم پہنچا۔ جس قدر نیچریوں کا جوش و خروش ہے اُس کو دیکھ کر اور نیز دوسرے مخالفین و معاندین کی معاندانہ کوششوں کو ملاحظہ کر کے جو کچھ مومنوں کے دلوں پر صدمہ پہنچتا ہے بِلاشُبہ وہ بیان سے باہر ہے۔ ہماری قوتیں کیا چیز ہیں؟ اور ہماری طاقتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟ اور ہم کیا ہیں؟ کہ کچھ دَم مار سکیں۔ خداوند کریم خود اس طوفان کو فرو کرے اور اس کے فضل و کرم پر ہی امیدیں ہیں۔ کچھ معلوم نہ ہوا کہ سردار بکرما سنگھ نے کیا اعتراض پیش کئے۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع فرماویں۔ بدقسمت لوگوں کو تعصب اور حب دنیا نے حق کے قبول سے روک رکھا ہے ورنہ عقائد حقہ اسلام کے اس قدر روشن اور بدیہی الصدق ہیں کہ کسی منصف اور طالب حق کو اُن میں کلام نہیں۔ سبحان اللہ کیا ہی مبارک دین ہے کہ اس کے سچے تابعین کی طرف رحمت الٰہی یوں دوڑتی ہے کہ جیسے پانی اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور مخالفین کا وجود بھی عبث نہیں۔ یہ اس لئے دنیا میں زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا مومنین کو ستاویں اور طرح طرح کے اُن کو دکھ دیں اور اپنے قول فعل سے درپے آزار رہیں اور اس طرح پر مومنوں کی ترقی اور مراتب کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ٹھہر جائیں۔ فالحمدللّٰہ علی الطافھا التجلیۃ والخفیۃ آپ کو کُلی اختیار ہے کہ جو کچھ قیمت کتاب میں جمع ہو اُس کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہیں۔ خداوند کریم نے آپ کی سعی میں برکت ڈالی ہے اور آپ وہ کام کر رہے ہیں کہ جس میں ہر یک کو