اور پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے۔ اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا ہمارا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے۔ جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں۔ بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں۔ مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے۔ چونکہ انسان کا خاصہ ہے جو معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خاں بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہے۔ پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا۔ لاہور کے برہموسماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے۔ مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں۔ عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا۔ جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو۔ اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ سو وہ دونوں وہ دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کرتے رہیں۔ تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے۔ ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی منابعت کرے اور متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے۔ تو بھر تحت الثری میں گر جاتا ہے۔ اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے۔
(۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
مکتوب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کا عنایت نامہ