قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے اُن کو توڑ کر دکھلاویں یا اُن کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں۔ اس خط کا جواب نہیں آیا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اسی حصہ چہارم میں اُن کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے۔ (۱۵؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ) مکتوب نمبر۲۰ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ ربہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بعد ہذا آن مخدوم کے دو عنایت نامہ پے در پے پہنچے۔ باعث مسرت اور خوشی ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا کے لئے اور آپ کی معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے۔ خداوند کریم نہایت مہربان ہے۔ اُس کے تفضلات سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ آپ نے لکھا تھا کہ ایک عالم نے فیروز پور میں اعتراض کیا ہے کہ رسول مقبول نے سیر ہو کر بھی کھایا ہے۔ لیکن اس بزرگ عالم نے اس عاجز کی تقریر کامنشاء نہیں سمجھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہونے کے معنی سمجھے ہیں۔ طیبین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اُس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو اُن لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ اُن کا کھانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اُس سیری کو اُن لوگوں کی طرف نسبت دی جائے جن کا اصل مقصد احتظاظ اور تمتع ہے اور جن کی نگاہیں نفسانی شہوات کے استیفا تک محدود ہیں تو اُس سیری کو ہم ہرگز سیری نہیں کہہ سکتے۔ سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے اور پاک لوگ اُسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ حرقت جوع دور ہو جائے اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جائے۔ غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھاوے جو اُس کی پشت کو قائم رکھے اور