ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی طول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔ دوسرے اوراد بھی بدستور محفوظ رکھیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں ہے ہر وقت سرگرمی کی توفیق خداوندکریم سے مانگنی چاہئے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچا دیں۔
(۱۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۶ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا سعی اور کوشش کے لئے جالندھر میں تشریف لے جانا خط آمدہ آں مخدوم سے معلوا ہوا۔ خداوند تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرماوے۔ جس آیت کو ایک مرتبہ بنظر کشفی دیکھا گیا تھا۔ اصلحھا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس شجرہ طیبہ کے آثار ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں یریدون ان یفرقوا بین اللّٰہ ورسلہ۔ لیکن خداوند قادر مطلق کے کام عقل اور قیاس سے باہر ہیں۔ وہ ہمیشہ عاجزوں اور ضعیفوں اور کمزوروں کو متکبروں اور مغروروں پر غالب کرتا رہا ہے اور آخر کار اُنہیں کی فتح ہوتی رہی ہے جو خدا کے لئے متکبروں کے ہاتھ سے ستائے گئے اور اگر خدا چاہتا تو ستائے نہ جاتے لیکن یہ اس لئے ضروری ہوا کہ تا خداوند کریم اپنے الطاف خفیہ کو بصورت جلال اُن پر متجلی کرے اور نفس کے پوشیدہ عیبوں سے اُن کو خلاصی بخشے اور اُن پر اُس کا تنہا ہونا، بیکس ہونا، غریب ہونا، ذلیل ہونا، بے اقتدار ہونا ثابت کر کے عبودیت حقیقی کی اعلیٰ مرابت تک پہنچاوے۔ کسی بشر کی طاقت نہیں کہ جو اپنے منہ کی واہیات باتوں سے خدا تعالیٰ کے ارادہ کو نافذ ہونے سے