جان کنی سے کیا اجر ملے گا۔ کیونکہ اُس کے جوشوں کی بِنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے۔ اُس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلک باخعٌ نفصکِ ان الا یکونوا مومنین۔ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے۔ اسی میں تیری جان جاتی رہے گی۔ سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ پس حقیقی پیری مریدی کا یہی اصول ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی اصول ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں۔ جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتی ہیں۔ تو اُن کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اُس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوندکریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اُس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے۔ مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے۔ سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ فالحمدللّٰہ علیٰ الاء ظاہرھا و باطنھا۔ مولوی صاحب اگر رسالہ بھیج دیں تو بہتر ہے شاہدین صاحب رئیس لودہیانہ کی طرف اُنہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی ۔ جب آپ نے لکھا تھا مگر اُنہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپر بھی لکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں۔ چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی۔ آپ کوشش میں توکل رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اُس کو کچھ کہنا نامناسب نہیں۔
(۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء مطابق رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب زاد اللہ فی برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا