مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ خداوندکریم کا کیسا شکر کیا چاہئے کہ اُس نے اپنے تفضلات قدیم سے آپ جیسے ولی دوست بہم پہنچائے۔ اگرچہ آپ کا اخلاص کامل اس درجہ پر ہے کہ اس عاجز کا دل بلااختیار آپ کی دعا کیلئے کھینچا چلا جاتا ہے پر جس ذات قدیم نے آپ کو یہ اخلاص بخشا ہے اُس نے خود آپ کو چُن لیا ہے۔ تب ہی یہ اخلاص بخشا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء بخدمت مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے نہایت بہتر ہے۔ دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔ الدعاء فخ العبادۃ۔ یہ عاجز اپنی زندگی کامقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے۔ مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔ سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اُس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کیلئے جوش نہیںاور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ اُسی کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیّت سے اُس کی رستگاری حاصل کرے۔ سو خدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے۔ غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے۔ اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے۔ یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو تا وہ کام کر دکھاؤے۔ سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا۔ یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیّت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں۔ تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتا اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو