ہیں بلکہ محض باطل یاامور مخلوطہ حق اور باطل کو بھی موجب نجات کا قرار دیتے۔ سوم یہ کہ حصول نجات کو صرف حق محض سے ہی (جو امتزاج باطل سے بکلی منزہ ہو) مشروط رکھتے اور یہ دعویٰ کرتے کہ طریقہ مجوزہ عقل کا حق محض ہی ہے اور اس صورت میں لازم تھا کہ بغرض اثبات اپنے اس دعویٰ کے ہمارے قیاس استقرائی کو (جو حجت کی اقسام ثلثہ میں سے تیسری قسم ہے جس کو مضمون سابق میں پیش کر چکے ہیں) کوئی نظیر معصوم عن الخطاء ہونے کسی عاقل کے پیش کر کے اور اس کے علوم نظریہ عقلیہ میں سے کوئی تصنیف دکھلا کر توڑ دیتے پھر اگر حقیقت میں ہمارا قیاس استقرائی ٹوٹ جاتا اور ہم اُس تصنیف کی کوئی غلطی نکالنے سے عاجز رہ جاتے تو آپ کی ہم پر خاصی ڈگری ہو جاتی مگر افسوس کہ آپ نے ایسا نہ کیا ہزاروں مصنفوں کا ذکر تو کیا مگر نام ایک کابھی نہ لیا اور نہ اس کی کسی عقلی نظیری تصنیف کا کچھ حوالہ دیا۔ اب اس تکلیف دہی سے میری غرض یہ ہے کہ اگر الہام کی حقیقت میں جناب کو ہنوز کچھ تامل ہے تو بغرض قائم کرنے ایک مسلک بحث کے شقوق ثلثہ متذکرہ بالا میں سے کسی ایک شق کو اختیار کیجئے اور پھر اس کا ثبوت دیجئے کیونکہ جب میں ضرورت الہام پر حجت قائم کر چکا تو از روئے قانون مناظرہ کے آپ کا یہی منصب ہے جو آپ کسی حیلہ قانونی سے اس حجت کوتوڑیں اور جیسا میں عرض کر چکا ہوں اس حیلہ انگیزی کے لئے آپ کے پاس صرف تین ہی طریق ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیارکرنے میں آپ قانونًا مجاز ہیں اور یہ بات خاطر مبارک پر واضح رہے کہ ہم کو اس بحث سے صرف اظہار حق منظور ہے۔ تعصب اور نفسانیت جو سفہا کا طریقہ ہے کہ ہرگز مرکوز خاطر نہیں میں دلی محبت سے دوستانہ یہ بحث آپ سے کرتا ہوں اور دوستانہ راست طبعی کے جواب کا منتظر ہوں۔ راقم آپ کا نیاز مند غلام احمد عفی عنہ ۵؍جون ۱۸۷۹ء مکرمی جناب مرزا صاحب آپ کا عنایت نامہ مرقومہ پانچویں ماہ حال مجھے ملا۔ نہایت افسوس ہے کہ میں نے آپ کے الہام کے بارے میں جو کچھ بطور جواب لکھا تھا اس سے آپ تشفی حاصل نہ کر سکے۔ میرا افسوس اور بھی زیادہ بڑھتا جاتا ہے کہ جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے جواب کے عدم تسلیم کی نسبت کوئی صاف اور معقول وجہ بھی تحریر نہیں فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ