کے متشابہ ہے۔ کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ ’’جس حالت میں نہ خود انسان اپنے علم اور واقفیت سے غلطی٭ سے بچ سکتے اور نہ خدا (جو رحیم و کریم اور ہر ایک سہو اور خطا سے مبرا اور ہر امر کی اصل حقیقت پر واقف ہے) بذریعہ اپنے سچے الہام کے اپنے بندوں کی مدد کرے تو پھر ہم عاجز بندے کیونکر ظلمات جہل اور خطا سے باہر آویں اور کسی طرح آفات شک و شبہ سے نجات پائیں لہٰذا میں مستحکم رائے سے یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ متقضائے حکمت اور رحمت بندہ پروری اس قادر مطلق کا یہی ہے کہ وقتاً فوقتاً جب مصلحت دیکھے ایسے لوگوں کو پیدا کرتا رہے کہ عقائد حقہ کے جاننے اور اخلاق صحیحہ کے معلوم کرنے ٭ کل حالتوں میں انسان اپنے علم اور واقفیت‘‘ میں غلطی نہیں کرتا۔ ایڈیٹر برادر ہند میں خدا کی طرف سے الہام پاویں‘‘۔ پس جس صورت میں آپ کی اس دلیل میں بھی ’’ضرورت‘‘ کا قیاس مثل ہماری دونوں دلیلوں کے ہے اور قوانین نیچر اس کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں تو پھر ایسا قیاس بجز فرضی اور وہمی ہونے کے اور کچھ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ہم خود تو بات بات میں ایسے سینکڑوں ضرورتیں قائم کر سکتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ خدا کی حکمت بھی ہماری فرضی ضرورتوں کو تسلیم کرتی ہے۔ یا نہیں؟ محققوں کے نزدیک وہی ’’ضرورت‘‘ ’’ضرورت‘‘ ہو سکتی ہے جس کو نیچر یا خدا کی حکمت نے قائم کیا ہو جیسے ہماری بھوک کے دفعیہ کیلئے غذا اور سانس لینے کے لئے ہوا کی ضرورت ہماری فرضی نہیں بلکہ نیچری ہے اور اسی لئے اُس کا ذخیرہ بھی انسان کی زندگی کے لئے اُس نے فراہم کر دیا ہے۔ مگر جو ضرورت کہ نیچر کے نزدیک قابل تسلم نہیں ہے اور اُسے خود ہم اپنے وہم سے قائم کرتے ہیں وہ ایک طرف جس طور پر محض فرضی ہوتی ہے دوسری طرف اُسی طور پر اُسے علت ٹھہرا کر جو نتیجہ قائم کرتے ہیں وہ بھی فرضی ہونے کے باعث واقعات کے ساتھ مطابق نہیں ہوتا ہے اور یہ صورت ہم نے اپنے مثالوں میں بخوبی ظاہر کر دی ہے۔ دوم اس بات کی نسبت کہ آپ نے الہام کی تعریف میں جوکچھ عبارت رقم کی ہے اُس کا آپ کی دلیل سے کہاں تک ربط ہے۔ اسی قدر لکھنا کافی ہے کہ جس حالت میں آپ نے