جاتا ہے اور کچھ ہوش نہیں رہتی۔ پس وہ چیز جس سے سکریت وجود پکڑتی ہے۔ ایک ظلمت ہے جو اپنی اصل حقیقت میں مغائر اور منافی حواس انسانی کے ہے۔ جس کا غلبہ ایک ظلماتی حالت نفس پر طاری کر دیتا ہے اور آلات احساس کو اس قدر تعطل اور بیکاری میں ڈالتا ہے کہ اُن کو عجائبات روحانی کا ماجرا کچھ یاد بھی نہیں رہتا لیکن فنا فی الفنا کی حالت کا موجب اور علت یعنی سبب ایک نور ہے۔ یعنی تجلیات صفات الٰہیہ جو بعض اوقات بعض نفوس خاصہ میں یکلخت ایک ربودگی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث سے شعور سے بے شعوری پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک نہایت لطیف اور تیز عطر بکثرت ایک مکان میں رکھا ہوا ہو تو ضعیف الدماغ آدمی کی بعض اوقات قوت شامہ کثرت خوشبو سے مغلوب ہو کر ایسی بے حس ہو جاتی ہے کہ کچھ شعور اُس خوشبو کا باقی نہیں رہتا۔ غرض سکریت کی حالت پیدا ہونے کے مؤثر اور موجب ایک ظلمت ہے اور فنا فی الفناء کی حالت کے پیدا ہونے کے لئے مؤثر اور موجب ایک نور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چشم بینا کیلئے دو طور کے مانع رؤیت ہوتے ہیں۔ یعنی دو سبب سے ایک سوجاکھے انسان کی آنکھ دیکھنے سے رہ جاتی ہے۔ ایک تو سخت اندھیرا جس کی وجہ سے نور بینائی محجوب ہو جاتا ہے اور دیکھنے سے رک جاتا ہے اور کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ یہ حالت تو سکریت کی حالت سے مشابہ ہے۔ دوسر ی مانع بصارت سخت روشنی ہے کہ جو بوجہ اپنی شدت اور تیزی شاع کے آنکھوں کو رؤیت کے فعل سے روکتی ہے اور دیکھنے سے بند کر دیتی ہے جیسے یہ صورت اس حالت میں پیش آتی ہے کہ جب عضو بصارت کو ٹھیک ٹھیک سورج کے مقابلہ پر رکھا جائے یعنی جب آنکھوں کو آفتاب کے سامنے کیا جائے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب آنکھ آفتاب کے محاذات میں ٹکٹکی باندھے یعنی آفتاب کی آنکھ اور انسان کی آنکھ آمنے سامنے ہو جائیں تو اُس صورت میں بھی انسان کی آنکھ فعل بصارت سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور روشنی کی شوکت اور ہیبت اُس کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی تمام قوت بینائی اندر کی طرف بھاگتی ہے۔ پس یہ حالت فنا فی الفناء کی حالت سے مشابہ ہے اور اس فقدان رؤیت میں جو دونوں طور ظلمت اور نور کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے۔ سکریت اور فنا فی الفناء کا فرق سمجھنے کیلئے بڑا نمونہ ہے۔ مگر بایں ہمہ باطنی کیفیت جس کا موجب تجلیات الٰہیہ اور جذبات غیبیہ ہوتے