ہیں۔ بیچون اور بیچگون ہی۔ جس میں اجتماع ضدین بھی ممکن ہے۔ باوجود بے شعوری کے شعور بھی ہو سکتا ہے اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں۔ وہ عالم اس عالم سے بکلی امتیاز رکھتا ہے۔ ولاتضربوا للّٰہ الامثال۔ اسی جہت سے پہلے بھی لکھا گیا تھا۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسیٰ صعقا۔ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا۔ جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الٰہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں۔ وہ اُس کا موجب اور باعث تھیں۔ جن کی اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اُس کا تدارک نہ کرتیں تو اُسی حالت میں گداز ہو کر نابود ہو جاتا۔ مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے۔ انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ مازاغ البصرو ماطغی۔ انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں۔ مگر اعلیٰ مقام اُس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور سکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے۔ ھذانا اللّٰہ ایانا وایاکم صراط المستقیم الذی انعم علی النبین والصدیقین والشھداء والصلحین واخردعونا ان الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ والسلام علیکم وعلی اخوانکم المومنین۔ (۲۵؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ) مکتوب نمبر۹ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ باعث اطمینان ہوا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت درست اور بجا لکھا ہے جو کچھ بطور رسم اور عادت کیا جاوے۔ وہ کچھ چیز نہیں ہے اور نہ اُس سے کچھ مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔ سچا طریق اختیار کرنے سے گو طالب صادق آگ میں ڈالاجاوے۔ مگر جب اپنے مطلب کو پائے گا، سچائی سے پائے گا۔راست باز آدمی نہ کچھ عزت سے کام رکھتا ہے، نہ ننگ سے، نہ خلقت سے، نہ اُن کے لعن سے نہ اُن کے طعن سے، نہ اُن کی مدح سے، نہ اُن کی ذم سے۔جب سچی طلب دامنگیر ہو جاتی ہے تواُس کی یہی علامت ہے کہ غیر کا بیم اور امید بکلی دل سے اُٹھ جاتاہے اور توحید کی کامل نشانی یہ ہے کہ محب صادق کی نظر میں غیر کا وجود اور نمود کچھ باقی نہ رہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ