دیکھو ہر ایک خصوصیت جو کہیں کسی خاص شخص کے متعلق پیدا کی گئی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس کا ضرور جواب دیا ہے مگر کیا وجہ کہ اتنی بڑی خصوصیت کا کوئی جواب نہ دیا ۔ خصوصیت ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے شرک پیدا ہوتا ہے ۔ یہ حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں آپ کی آخری تقریر ہے جو آپ نے بڑے زوراورخاص جوش سے فرمائی ۔دوران تقریر میں آپ کا چہرہ اس قدر روشن اور درخشاں ہوگیا تھا کہ نظر اٹھا کردیکھا بھی نہیں جاتا تھا ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تقریر میں ایک خاص اثر اورجذب تھا ۔ رعب ‘ہیبت اورجلال اپنے کمال عروج پر تھا ۔ بعض خاص تحریکات اورموقعوں پر حضرت اقدس کی شان دیکھنے میں آئی ہوگی جو آج کے دن تھی ۔اس تقریر کے بعد آپ نے کوئی تقریر نہیں فرمائی ۔۱؎ (فقط مرتبہ عبدالرحمن قادیانی ) آخری دن ۲۶مئی ۱۹۰۸ئ؁ بوقت نماز فجر جب فجر کی اذان کان میں پڑی تو حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ ’’کیا صبح ہوگئی ؟‘‘ جواب ملنے پر فجر کی نماز کی نیت باندھی اوراداکی ۔ آخری الفاظ وہ الفاظ جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے یہ تھے :۔ ’’اے میرے پیارے ۔ اے میرے پیارے ۔اے میرے پیارے اللہ ۔اے میرے پیارے اللہ ‘‘ ۲؎ ۱؎ الحکم جلد ۱۲نمبر ۴۲صفحہ ۷۔۸ مورخہ ۱۸جولائی ۱۹۰۸ئ؁ ۲؎ الحکم جلد ۱۵نمبر ۱۹‘۲۰مورخہ ۲۱‘۲۸مئی ۱۹۱۱ئ؁