جانے کے معنے نہیں ہیں ۔جہاں دیکھو یہ لفظ موت ہی کے معنوں میں وارد ہوتا ہے ۔
اصل میں جو شخص طالب حق نہیں اورمحض ایک قسم کی شیخی اورتکبر کے واسطے ایسی خواہش کرتا ہے اس سے مجھے بدبوآتی ہے ۔میں ایسے آدمی پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ جس کو حق کی سچی پیا س نہیں اورجس کی تڑپ خدااورخدا کے دین کے واسطے نہیں بلکہ نفس کا بندہ اور نفس کی عزت وجا ہ کے واسطے مرتا ہے۔میرے پاس اگر کوئی شخص طلب حق اورخداجوئی کی پیاس اورسچی تڑپ لے کر آتا ہے تومجھے اس سے ایک قسم کی خوشبو آجاتی ہے اورپھر میںا س کے واسطے اپنے باز و بچھا دیتا ہوں اوراس کو انپی آنکھو ں سے قبول کرتا ہوں اورجہانتک مجھ سے بن پڑتا ہے میں اس کی خدمت کو اپنا فخر سمجھتا ہوں مگر ایک ناپاک دل انسان جس میں شرارت پوشیدہ ہوتی ہے اوروہ حق جو نہیں بلکہ دنیا طلب ہوتا ہے توہمیں اس سے بد بو آجاتی ہے اورپھر اس کے بعد ہم اس سے کلام کرنا بھی پسند نہیں کرتے ۔
حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کی وفات
خداتعالیٰ نے جس بات پر ہمیں قائم کیا ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام مجید میں حضرت مسیح کی موت کو صراحت سے ایک جگہ نہیں بلکہ ۔ بیسیوں مقام پر ظاہر کردیا ہے اور آنحضرت ﷺ نے اپنے فعل سے شہادت دے دی کہ اس کو مردوں کی ذیل میں دیکھا اورکوئی مابہ الامتیاز اس میں اور اس کے غیروں میں بیان نہیں فرمایا ۔
آج ہندوستان میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ مرتد صرف اسی بات سے ہوچکا ہے کہ نام کے مسلمانوں کے عقائد غلط سے عیسائیوں نے مسیح ؑ کی فضیلت ثابت کرکے اپنے مذہب سے ناواقف لوگوں کے سامنے اسے پیش کیا اوران کے اپنے ہی معتقدات میں سے ان پر ایسے ایسے الزام دئیے جن کا جواب ان میں سے کسی سے بھی بن نہ پڑا ۔ مگر یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کسی بھی خصوصیت کو قائم نہیں رہنے دیا بلکہ ان کی ہر بات کا جواب دے کر خود ان کو ہی خوار کیا ہے۔
نصاری ٰ نے ایک عقیدہ پکڑا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ چونکہ بن باپ کے ہیں لہٰذا یہ خصوصیت ان کی خدائی کی پختہ دلیل ہے اوریہ ان کا مسلمانوں پر ایک بھاری اعتراض تھا اوراس سے وہ حضرت عیسیٰؑ میں ایک خصوصیت ثابت کرکے ان کی خدائی کی دلیل پکڑتے تھے تواللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں ان کا یوں منہ توڑا ۔ اوران کاردیوں بیان کیا کہ ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم (آل عمران :۶۰) یعنی اگر حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش اعجازی رنگ میں پیش کرکے تم اس کی خدائی کی دلیل ٹھہراتے ہوتو پھر آدم بطریق اولیٰ خداہونا چاہئیے کیونکہ اس کا نہ باپ نہ ماں اس طرح سے اول آدم کو بڑا خدامان لو پھر اس بات کو عیسیٰؑ