کررہی ہیں ۔اگر کسی کو کوئی شک وشبہ ہوتو یہودی موجود ہیں‘نصرانی موجود ہیں ۔ان سے پوچھ لو کہ ان کا اس بارہ میں کیاعقیدہ ہے ۔ دونو متخاصم موجود ہیں ‘ان سے پوچھ لوکہ آیا وہ بھی اس بات کے قائل ہیں جو تم پیش کرتے ہو۔ دیکھو تو اتر قومی کو بغیر کسی زبردست دلیل اورحجت نیرہ کے توڑدینا اوراس کی پروانہ کرنا یہ بڑی بھاری غلطی ہے ۔ تعجب کی بات ہے اوریہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ کسی دوسرے آدمی کو پکڑ کر خواہ نخواہ بے قصور سولی پر چڑھادیا جاوے اور وہ چوں بھی نہ کرے اوردوائی بھی نہ دیوے کہ میں توتمہارا ساتھی ہوں مجھے کیوں بیگناہ سولی پر چڑھاتے ہو۔ تمہارا اصل ملزم توبچ گیا اورمیں جوکہ تمہارا ہی ساتھی ہوںیہ میرا نام ہے فلانے ماں باپ کا بیٹا ہو ں۔ یہ میر یرشتہ دار ہیں ۔مجھے کیوں مارتے ہو؟ جان کا معاملہ اورلعنتی موت کا نشانہ بننا ہے اصل ملزم بچایا جاتا ہے ایک بے گناہ بے قصور بے تعلق آدمی سولی چڑھادیا جاتا ہے اورپھر تعجب یہ کہ بولتا تک نہیں۔ یہ بھید تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا ۔علاوہ وحی اورعلم غیب کے جو ہمیں خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل سے بخشا اورمکالمہ مخاطبہ کا خاص فیضان جاری کرکے ہمیں اس نے ان امور میں حقیقی علم عطا کیا۔ ہمارا ضمیر اس کو ہرگز ہرگز قبول نہیں کرتا کہ اتنا بھاری تو اتر اور کروڑوں انسانوں کی متفقہ شہادت بالکل غلط ہے اوریہ سب جو سمجھے بیٹھے تھے ایک وہم تھے ایک وہم تھا اورخیا ل غلط ۔دیکھو ؎ تانہ باشد چیز کے مردم نہ گویند چیزہا میں نہیں سمجھتا کہ خداتعالیٰ کو ایسی کمزوری کی کیا ضرورت تھی ۔کیاوہ علیٰ رئوس الاشہاد مسیح کو بچانے پر قادر نہ تھا کہ اس کو ایسا ظلم روارکھنا پڑا۔ اورایک بے گناہ انسان کی جان خواہ نخواہ ہلاکت میں ڈالی ۔ قرآن اورحدیث کے خلاف ایک نئی راہ نکال کر پیش کرنا اس کا بارثبوت مدعی کے ذمے ہے ۔ توفی کے معنی میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ سب امو رایسے ہیں کہ آسانی سے ان کو ردکیا جاوے۔ قرآن شریف میں صرف لفظ توفی ہی کو لے کر اس کو دیکھ لوکہ بھلا کسی مقام پر اس کے معنی بجز موت کے کچھ اور بھی ہیں یا مع جسم عنصری کے آسمان پر اٹھائے جانے کے ہیں؟ یہی توفی کا لفظ ہے جو آنحضرت ﷺ کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔آیت کریمہ اما نرینک بعض الذی نعد ھم اونتوفینک (یونس :۴۷) پر غور کرکے دیکھ لو۔ پھر یہی توفی کا لفظ ہے جو حضرت یوسف ؑ کے حق میں وارد ہے ۔ پھر ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ بر خلاف نص قرآنی کے اورتمام انبیاء کے کیوں حضرت عیسیٰ کو یہ خصوصیت دی جاتی ہے ۔ کتب احادیث میں قریباً تین سو مرتبہ یہی لفظ توفی کا آیا ہے مگر کہیں بھی بجسد عنصری آسما ن پر اٹھائے