کی خدائی کی دلیل ٹھہرانا ۔
پس اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس استدلال کو غلط ثابت کردیا۔ غرض نصاریٰ کے مسیح کوبن باپ کی پیدائش سے ان کی خدائی اور استدلال پکڑنے کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی نظیر پیش کرکے باطل ٹھہرادیا۔
ایک دوسری دلیل نصاریٰ نے مسیح کی خدائی کی یہ پیش کی تھی کہ وہ زندہ ہیں اورمع جسم عنصری آسمان پر خداکے داہنے ہاتھ بیٹھے ہیں اوراس امر سے انہوں نے مسیح کی ایک خصوصیت ثابت کرکے اس کو ان کی خدائی کی ایک زبردست دلیل کے طورپر پیش کیا ہے ۔اب ہمیںکوئی بتادے کہ اگر توفی کے معنے مع جسم عنصری آسمان پر ہی اٹھائے جانے کے ہیں اور اس کے معنے حضرت عیسیٰؑ کے لئے موت کے نہیں ہیں توپھر نصاریٰ کے اس اعتراض کا قرآن نے کہاں جواب دیا ہے ؟یا جس طرح ان کی دلیل اول کو ایک نظیر پیش کرکے توڑ اتھا اسی طرح کہیں سے ہمیں یہ بھی نکال کربتائو کہ حضرت مسیح ؑ سے پہلے یا پیچھے اوربھی کوئی ایسی نظیرپائی جاتی ہے ؟اوراگرکوئی نظیر نہیں تویادرکھو کہ اسلام آج بھی گیا اور کل بھی گیا۔ نصاریٰ تم کو خود تمہارے اپنے عقید ہ سے ملزم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم خود حضرت عیسیٰؑ کو زندہ اورجسم عنصری سے آسمان پر مانتے ہو۔ حالانکہ تمہارے رسول خاک مدینہ میںمدفون ہیں۔ اب بتائو !کون افضل ہے عیسیٰؑ یا محمد !
افسوس ہے ان نام کے مسلمانوں پر کہ اپنی ناک کاٹنے کے واسطے آپ ہی دشمن کے ہاتھ میںچھری دیتے ہیں ۔یادرکھو کہ اگر خداتعالیٰ کا یہی منشا ہوتا اورقرآن وحدیث میں حقیقتاً یہی امر اس نے بیان کیا ہوتا کہ واقعہ میں حضرت مسیح زندہ ہیں اور وہ مع جسم عنصری آسمان پر بیٹھے ہیں اور یہ عقیدہ بھی حضرت مسیح ؑ کے بن باپ پیدا ہونے کی طرح خداتعالیٰ کے نزدیک سچا عقیدہ ہوتا تو ضرورتھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی بھی کوئی نہ کوئی نظیر پیش کرکے قوم نصاریٰ کو اس امر کے حضرت مسیح ؑ کی خدائی کی دلیل پکڑنے سے بند اور لاجواب کردیتا ۔ مگر خدا تعالیٰ کے کلام پر تھوپ رہے ہوبلکہ توفی کا لفظ خداتعالیٰ نے محض موت ہی کے معنوں کے واسطے وضع کیا ہے اوریہی حقیقت اوراصل حال ہے ۔
۱؎ بدر سے :۔ ’’پس ایساہی زندہ آسمان پر موجود ہونے کو عیسائی دلیل ابن اللہ ہونے کی قرار دیتے ہیں
اس کی مثال کیوں نہ بیان کی تاعیسیٰ کسی بات میں وحد ہٗ لاشریک نہ ٹھہرے ۔
تم عیسیٰ کو مرنے دوکہ اس میں اسلام کی حیات ہے ۔ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمد ی آنے دوکہ اس میں اسلام کی عظمت ہے ۔میں سچ کہتا ہوں کہ اگر اسلام میں وحی والہام کا سلسلہ نہیں تواسلام مرگیا۔‘‘
(بدر جلد ۷نمبر ۲۲صفحہ ۷کالم نمبر ۳ مورخہ ۲ جون ۱۹۰۸ئ)